فکر و نظر / مضامین و مقالات

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں


✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)


وقت انتہائی قیمتی چیز ہے، جو لمحات گذر جاتے ہیں وہ دوبارہ واپس نہیں آتے، اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اللّٰہ رب العزت نے قران کریم میں مختلف جگہوں پرصبح،رات، دن، دوپہر اور زمانہ کی قسم کھائی ہے، اسی طرح احادیث میں بھی فراغ وقت کو اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، بیماری سے پہلے صحت کو، محتاجی سے پہلے تونگری کو، مصروفیت سے پہلے فراغت کو اور موت سے پہلے زندگی کو(حاکم المستدرک 4رقم الحدیث 7846) اسی لیے وقت کو سونے سے زیادہ قیمتی کہا گیا ہے۔

ہماری زندگی کا جووقت گذر جاتا ہے اور ہم اس میں کوئی تعمیری یاملی کام نہیں کرپاتے تو سمجھنا چاہیے کہ وہ ضائع ہوگیا، اسی لیے حضرات صحابہ کرام، ائمہ عظام اور علمائے ذی احترام رحمہم اللہ نے ہمیشہ وقت کی قدر کی اور لمحہ لمحہ کام میں صرف کیا، جامعہ رحمانی مونگیر کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمد شمس الحق صاحب ؒ سے مرض وفات میں میری ملاقات ہوئی، میں نے ان سے نصیحت کی درخواست کی تو فرمایا: وقت کی قدر مرنے کے وقت معلوم ہوتی ہے، ایک بڑے مفکر کا قول ہے کہ جو وقت کو ضائع کرتا ہے، وقت اسے ضائع کردیتاہے۔

اللہ رب العزت نے وقت کا ذخیرہ سب کو برابر فراہم کیا ہے، ایسا نہیں کہ غریب کے پاس وقت کم ہے اور امیر کے پاس زیادہ، جس طرح سورج کی روشنی غریب و امیرسب پر یکساں پڑتی ہے، اسی طرح وقت بھی سب کے پاس یکساں ہے، ہر ایک کو چوبیس گھنٹے ہی عطا کیے گیے، ہر گھنٹے کے ساٹھ منٹ سب کے لیے مقرر ہیں، اب اسے کوئی سُو کر گذار دے یا جاگ کر گذار دے، نیک عمل میں صرف کرے یا بد عملی کے لیے استعمال کرے۔ یہ استعمال کرنے والے کی مرضی پر منحصر ہے۔

اللہ رب العزت نے ہمارے اوقات کو منظم کرنے کے لیے سارے ارکان اسلام کو وقت کے ساتھ فرض کیا، نماز، روزے، حج، زکوٰة سب کے اوقات مقرر ہیں۔ نماز وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہے، روزے کے لئے مہینہ مقرر کیا، مہینہ اوقات کے مجموعہ کا ہی دوسرا نام ہے، زکوٰة کے لیے موجود مال پر سال گذرنے کی قید لگائی اور حج کے لیے پانچ دن مقرر فرمائے۔ کسی بھی رکن کو انسانوں کی مرضی کے تابع نہیں کیا، بلکہ اوقات کے تابع کیا، اگراس نظام الاوقات کی پابندی کوئی نہیں کرتا تو” فرض“ اس پر” قرض“ ہوجاتاہے، جسے بعض عبادتوں میں” قضا“ سے تعبیر کرتے ہیں اور حج میں وقت کی پابندی نہ کی جائے تو اس سال کی حد تک تو وہ فوت ہی ہوجاتا ہے، زندگی کا کیا بھروسہ، اگلے سال ملے یا نہ ملے۔ تمام دفاتر میں بھی کام کے اوقات متعین ہوتے ہیں اور اس میں سستی اور کوتاہی معیوب ہونے کے ساتھ قابل تعزیر جرم بھی قرار پاتا ہے۔

وقت کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ ایک نظام الاوقات بنایا جائے، صبح سے شام تک، بلکہ سونے سے قبل تک اس دن جو کچھ کرنا ہے اس کو یادداشت میں نوٹ کرلیا جائے اور اسی کے مطابق رات و دن عمل کیا جائے۔ جو ذمہ داریاں آپ کو دی گئی ہیں اور جو کام کے اوقات مقرر ہیں اس کو بھی اپنے نظام الاوقات کا حصہ بنائیے اور اس کے خلاف کرنے کی عادت مت ڈالیے، کبھی نظام الاوقات میں وقتی واقعات و معاملات اور کسی غیر متوقع حادثات کی وجہ سے تبدیلی ہوسکتی ہے، یہ نظام فطرت ہے، لیکن ہر دن نظام الاوقات کے مطابق کام نہ انجام پائے تو یہ وقت کی ناقدری کے زمرے میں آئے گا، اسی لیے دفاتر میں حاضری میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور سارے کام وقت پر انجام دینے چاہیے۔

اگر آپ نے وقت کا لحاظ نہیں رکھا تو بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے، مثلاً آپ نے بجلی بل وقت پر ادا نہیں کیا تو اسے سود کے ساتھ اضافی جمع کرنا پڑے گا، امتحان کے موقع سے آپ بروقت نہیں پہونچے تو آپ امتحان دینے سے محروم رہ گیے ، اسٹیشن وقت پر نہیں پہونچے تو ٹرین چھوٹ جائے گی۔ کیوں کہ ٹرین کو آپ کا انتظار نہیں ہوگا۔وقت کی پابندی نہ کرنے سے موقع بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے، اس لیے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اور گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔اور جب وقت نکل جاتا ہے یا ہمیں دیر ہوجاتی ہے تو ہم ذہنی تناؤ کے شکار ہوتے ہیں جس سے ہم اپنے مفوضہ کاموں کو اچھی طرح انجام دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے، اس کے علاوہ ہمیں اپنے ذمہ داروں کے سامنے جھوٹ بولنا پڑتا ہے، حیلے تراشنے پڑتے ہیں، یقینا بعض لوگ ہمارے درمیان ایسے ہیں جو جھوٹ اس صفائی سے بولتے ہیں کہ ہم سچ اس قدر صفائی سے نہیں بول پاتے، جھوٹ صفائی سے ہویا صفائی دینے کے لیے ہو، ہر حال میں مذموم ہے اور جھوٹوں پر اللّٰہ کی لعنت تو قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ایک کام وقت پر نہیں ہوا تو پورے دن کا نظام بے وقت ہوکر رہ جاتاہے۔ میں نے اپنے استاذ حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوریؒ سابق شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند کو دیکھا کہ اگر وہ ہم جیسے چھوٹے یا بہت بڑے آدمی کی بھی دعوت کرتے تو صاف صاف بتاتے کہ میرے یہاں دن کا کھانا فلاں وقت ہوتا ہے۔

اور اس پر سختی سے عامل ہوتے، بڑوں کی دعوت ہوتی تو شاگردوں کو یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی، ایک بار کسی نے پوچھ لیا تو فرمایا کہ ایک دعوت کے لیے پورے دن کے نظام کو بدلا نہیں جاسکتا، عافیت ہر دو کے لیے اسی میں ہے کہ وقت کی پابندی کی جائے، وقت کی پابندی ان کے یہاں اس قدر تھی کہ کثیر العیال تھے، لیکن کبھی ان کے گھر سے بچوں کے رونے کی آواز نہیں سنی گئی، ایک بار دریافت کیا تو فرمایا: رونے والا بچہ ہر وقت کسی نہ کسی کی گود میں رہتا ہے، اس کا نظام بنا ہوا ہے، پھر وہ کیوں روئے گا۔ دار العلوم ندوة العلماء لکھنؤ کے مہتمم حضرت مولانا سعید الرحمن اعظمی دامت برکاتہم اس کبرسنی اور ضعف و نقاہت کے عالم میں بھی وقت کے اس قدر پابند ہیں کہ ان کی آمد و رفت دیکھ کر آپ گھڑی ملاسکتے ہیں۔ ہمارے اکابر میں نظام الاوقات کی پابندی میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا بھی جواب نہیں تھا، تبھی ان کے لیے تصنیفات و تالیفات میں وقت لگانا ممکن ہوا اور ہر فن میں انہوں نے کتابیں تصنیف کیں، وہ تو آنے والے مہمانوں سے بھی دریافت کرتے تھے کہ کب تک قیام رہے گا، پھر اسی اعتبار سے اس کے کام کے لیے وقت نکالتے،

ایک بار شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ ان کے مہمان ہوئے تو ان سے اجازت لے کر بیان القرآن لکھنے کے لیے اٹھ گئے، پھر جلدہی واپس ہوئے، حضرت شیخ الہندؒ نے دریافت کیا تو فرمایا: ناغہ نہ ہو اس لیے چند سطور لکھ کر آگیا۔ حضرت مولانا سید محمد شمس الحق صاحبؒ سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر کو دیکھا کہ وہ اپنے بچوں سے بھی گفتگو وقت کی پابندی سے کرتے تھے، جس سے بات کرنی ہوتی اس کو خبر کراتے کہ اتنے بج کر اتنے منٹ پر تم سے بات کرنی ہے، فرماتے کہ اس طرح کرنے سے وقت بھی منضبط رہتا ہے اور بات کی اہمیت بھی سمجھ میں آتی ہے۔ امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین رحمة اللہ کو دیکھا کہ وہ وقت کی پابندی کا غیر معمولی اہتمام کرتے، کبھی کبھی یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ وہ جلسہ گاہ پہونچ گیے تیاری مکمل نہیں تھی منتظم کا بھی پتہ نہیں تھا، لیکن جو وقت دیا گیا تھا اس کے مطابق وہ پہونچ گیے، یہی طرز عمل موجودہ امیر شریعت مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کا ہے، ہم میں سے کسی کو تاخیر ہوسکتی ہے، لیکن حضرت تاخیر نہیں کرتے۔ یہ ایک اچھی صفت ہے، جس کو ہر انسان کو اپنا نا چاہیے۔

آج جو وقت میں بے برکتی کا رونا رویا جاتاہے، اس کی وجہ وقت کی ناقدری ہے، ہر آدمی شکوہ کناں ہے کہ میرے پاس وقت نہیں ہے، بہت ایسے لوگ بھی وقت نہیں ہے کی بات کرتے ہیں جن کے احوال کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ یوں ہی مشغول ہیں، انگریزی میں اسے (Busy for Nothing)کہتے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ وقت تو ہے ہی، ہم اس کا استعمال صحیح سے نہیں کرپاتے، اس لیے وقت نہیں ہے کا احساس ہوتاہے۔ وقت کا صحیح مصرف لیجئے، چائے کی دکانوں پر گپ بازی میں وقت ضائع نہ کیجئے، موبائل پر فضولیات میں وقت مت لگائیے غیر ضروری مجلس لگانے اور فضول بیٹھکوں سے احتراز کیجئے اور ان اوقات کو تعمیری کاموں میں لگائیے تو ہر کام بروقت ہوگا اور وقت میں ایسی برکت ہوگی، جس کا آپ تصور نہیں کرسکتے اس لیے اس مصرعہ کو حرز جاں بنالینا چاہیے۔
ع گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button