کرناٹک حجاب تنازعہ: ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں کیا گیا چیلنج، کرناٹک ہائی کورٹ نے مذہبی لباس پر لگائی پابندی
- کرناٹک ہائی کورٹ نے 10 فروری کو حکم جاری کیا تھا کہ درخواست کے زیر التوا ہونے تک کوئی بھی اسکول کالجوں میں مذہبی لباس نہیں پہن سکتا ۔اس حکم نامہ میں اسکول اور کالج بھی کھولنے کو کہا گیا ہے۔
طالب علم نے عبوری حکم نامے کو سپریم کورٹ میں کیا چیلنج ۔
نئی دہلی، 11 فروری (قومی ترجمان) کرناٹک حجاب معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ کے عبوری حکم کو اب سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں ایک طالب علم نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے جمعرات کو ایک حکم جاری کیا تھا کہ جب تک درخواست زیر التوا ہے کوئی بھی اسکول کالج میں مذہبی لباس نہیں پہنے۔ اس میں اسکول اور کالج بھی کھولنے کے لیے کہا گیا تھا۔ واضح رہے کہ ہائی کورٹ میں پیر کو بھی کیس کی سماعت جاری رہے گی۔
یہ بھی پڑھیں
جانئے ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کیا کہا؟
ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ ہم حکم جاری کریں گے۔ تب تک سکول کالج شروع ہونے دیں ۔ لیکن جب تک معاملہ حل نہیں ہوتا کسی کو مذہبی لباس پہننے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہائی کورٹ نے کہا ”فیصلہ آنے تک اسکول کالج کے احاطے میں حجاب یا زعفرانی شال جیسے مذہبی لباس نہیں پہنا جائے گا۔ ہم سب کو روکیں گے۔ کیونکہ ہم ریاست میں امن چاہتے ہیں۔ ہائی کورٹ مسلم طالبات کی جانب سے کالجوں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
اس مشروب کو روزانہ پینے سے پیٹ اور کمر کی چربی تیزی سے کم ہو جاتی ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران ریاستی ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ فی الحال وہ دوسرے مسئلے پر بھی غور کر رہے ہیں کہ آیا حجاب پہننا بنیادی حقوق کے تحت آتا ہے یا نہیں ۔ عدالت نے کہا کہ وہ اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں کہ کیا ہیڈ اسکارف / حجاب پہننا مذہبی روایت کا لازمی حصہ ہے یا نہیں ۔
یوتھ کانگریس صدر نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی۔
دوسری جانب جمعرات کو سپریم کورٹ میں نئی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ اس عرضی میں یوتھ کانگریس کے صدر بی وی سرینواس اور صحافت کے ایک طالب علم نے مذہب پر عمل کرنے کے حق کو آئین میں بنیادی حق قرار دیا ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ یہ بنیادی حقوق کی سیدھے طور پر خلاف ورزی ہے اور اس طرح کے واقعات کئی ریاستوں میں بھی ہو رہے ہیں اس لیے بہتر ہوگا کہ عدالت اس کا نوٹس لے۔
ان خبروں کو بھی پڑھیں