موسمیاتی تبدیلی کی مار، مارچ میں ہی درجہ حرارت 40 سے متجاوز
رپورٹ:ڈاکٹر سیما جاوید
ترجمہ: محمد علی نعیم
موسم گرما میں وسطی اور شمال مغربی ہندوستان میں گرمی کا آغاز کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن وسط مارچ میں ہی درجہ حرارت 40 ڈگری کو پہنچ جانا یقیناً حیران کن ہے نیز کچھ راحت کے بعد آئندہ دنوں درجہ حرارت میں مزید شدت کے امکانات ہیں
مارچ کے دوسرے ہفتے میں ہی وسطی ہندوستان بالخصوص راجستھان، گجرات، مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش اور تلنگانہ کے ملحقہ علاقوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سیلسیس سے متجاوز ہوگیا تھا ،عروس البلاد ممبئی کی بات کریں تو شہر میں گرمی ایک بار پھر اپنے عروج پر پہنچ رہی ہے اور گزشتہ 23 مارچ کو وہاں سب سے زیادہ 38 ڈگری درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا جبکہ مارچ کے مہینے میں اب تک ممبئی میں اوسط درجہ حرارت 32.8 ڈگری سیلسیس رہا ہے
شمال مغربی میدانی علاقوں میں بھی درجہ حرارت میں اضافہ ہورہاہے جو گرمی کی لہر کے لئے زمین کو تیار کر رہا ہے۔ جموں و کشمیر، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ جیسی پہاڑی ریاستوں میں بھی گرمی محسوس کی جا رہی ہے، جبکہ وہاں مارچ کے مہینے میں بھی برف پڑتی تھی۔
حکومت کے زیر انتظام انڈیا میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ (IMD) کے مطابق جب میدانی ،ساحلی اور پہاڑی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 40 ڈگری سیلسیس، 37 ڈگری سیلسیس اور 30 ڈگری سیلسیس تک پہنچ جاتا ہے تو اسے ہیٹ ویو یعنی گرم لہر قرار دیا جاتا ہے، یہ درجہ حرارت معمول سے 4-5 ڈگری سیلسیس زیادہ ہے۔ اگر یہ معمول سے 5-6 ڈگری سیلسیس زیادہ ہوتا تو اسے شدید ہیٹ ویو کہا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
- جمعیت علماء اتردیناجپور کا انتخابی عمل
- تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ
- سکشمتا 2.0 میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات
اسکائی میٹ ویدر میں کلائمیٹ چینج کے اے وی پی مہیش پلووت کہتے ہیں کہ ہم توقع تو کر رہے تھے کہ گرمی کی لہر اواخر مارچ تک وسطی اور شمال مغربی ہندوستان کے کچھ علاقوں میں آئیگی لیکن ہم اس کے اتنی جلد آنے کی امید نہیں کر رہے تھے،لیکن یہ ہمارے لیے حیران کن نہیں ہے، کیونکہ پچھلے کچھ سالوں میں ہم دن کے درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ دیکھ رہے ہیں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ توڑ رہا ہے عالمی درجہ حرارت میں ہوئے اس اضافہ کو اگر آنے والے وقت میں نہ روکا گیا تو اس کے اور زیادہ ہونے کا خدشہ ہے دنیا بھر کے سائنسدان اس بات کو بار بار دہرا رہے ہیں ،آئی پی سی سی کی حالیہ ڈبلیو جی 2 رپورٹ کے مطابق اگر آلودگی کے اخراج کو تیزی سے کم نہ کیا گیا تو گرمی اور امس انسانوں کے لئے ناقابل برداشت حالات پیدا کریں گے ،ہندوستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں اس طرح کے ناقابل برداشت حالات محسوس کیے جائیں گے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لکھنؤ اور پٹنہ ان شہروں میں شامل ہیں جہاں اخراج کی موجودہ شرح جاری رہنے پر ویٹ بلب درجہ حرارت 35 ڈگری سیلسیس تک پہنچنے کے امکانات ہیں نیز بھونیشور، چنئی، ممبئی، اندور اور احمد آباد میں ویٹ بلب درجہ حرارت 32-34 ڈگری سیلسیس تک پہنچ جائے گا
مجموعی طور پر آسام، میگھالیہ، تریپورہ، مغربی بنگال، بہار، جھارکھنڈ، اوڈیشہ، چھتیس گڑھ، اتر پردیش، ہریانہ اور پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوں گے، لیکن اگر اخراج میں اضافہ ہوتا رہا تو تمام ہندوستانی ریاستوں میں ایسے علاقے ہوں گے جو 30 ڈگری ویٹ بلب درجہ حرارت یا اس سے زیادہ کا تجربہ کریں گے
آئی پی سی سی کی تازہ ترین WBG2 رپورٹ کے سربراہ تجزیہ کار اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی میں اسکول آف بزنس کے ریسرچ ڈائریکٹر اور ایڈجنکٹ پروفیسر ڈاکٹر انجل پرکاش نے کہا کہ ہندوستان کے کئی علاقے مارچ کے مہینے میں ہی شدید گرمی سے جل رہے ہیں، آئی پی سی سی کی رپورٹ اس بات پر یقین کرتی ہے کہ معاشی اور سماجی طور پر انتہائی پسماندہ شہری گزشتہ چند دہائیوں کے دوران شدیٹ گرم موسم سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں،گلوبل وارمنگ خطرے والے علاقوں میں اشیاء خوردونوش کی پیداوار پر دباؤ بڑھا رہی ہے کیونکہ گرم لہروں کے حالات اور ڈیڑھ سے دو ڈگری سیلسیس گلوبل وارمنگ میں خشک سالی کی شدت اور تعدد میں اضافہ ہورہاہے،توقع ہے کہ یہ شدید موسمی حالات مستقبل میں خراب صحت اور قبل از وقت موت کے واقعات میں نمایاں اضافہ کا باعث بنیں گے، آئی پی سی سی وثوق کے ساتھ تسلیم کرتا ہے کہ گرمی کی لہر کے خطرے کے واقعات بتدریج موسم کے ساتھ بڑھتے رہیں گے، جس کے نتیجے میں متعلقہ اموات ہوتی ہیں
آئی پی سی سی کی رپورٹنگ ٹیم کی سرکردہ رکن اور انڈین انسٹی ٹیوٹ فار ہیومن سیٹلمنٹس کی سینئر محقق ڈاکٹر چاندنی سنگھ نے کہا کہ کسی ایک شہر میں گرمی کے یکساں اثرات محسوس نہیں کئے جاتے ہیں ، وہ لوگ جن کے پاس خود کو ٹھنڈا کرنے کے آلات نہیں ہے یا جن کو باہر کام کرنا پڑتا ہے جیسے مزدور، سڑک پر دکاندار وغیرہ زیادہ متاثر ہونگے ، نیز شدید گرمی کی لہروں کےنتائج بھی یکساں نہیں ہو سکتے ہیں لہٰذا ان کے مختلف اثرات کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔”
اسکائی میٹ ویدر کے مہیش پلاوت کہتے ہیں، "ترقی کے ساتھ شہروں کا موسم بھی پوری طرح سے بدل گیا ہے،کنکریٹ اور تعمیراتی اشیاء کے درمیان ہوا کے بندھن کی وجہ سے موسم گرم رہتا ہے ،اربن ہیٹ آئی لینڈ (UHI) شہری علاقوں کو گرم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ،سبز غلاف کو پہنچنے والے نقصان اور زیادہ لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے کافی سایہ نہ ہونے سے صحت عامہ پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے
موسم گرما کی موجودہ صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ راجستھان اور اس سے ملحقہ پاکستان پر کسی موسمی خلل کی عدم موجودگی اور اینٹی سائیکلون کی موجودگی کی وجہ سے گرم ہوائیں شمالی اور وسطی ہندوستان کی طرف بڑھ رہی ہیں ,مارچ کا مہینہ گرم مہینے کے طور پر ختم ہونے جا رہا ہے اور اپریل کے آغاز تک ریلیف کی کوئی امید نہیں ہے۔ دھیمی ہوا اور خشک موسم ایک بار پھر شمال مغربی ہندوستان میں درجہ حرارت میں اضافہ کرے گا، جس سے ہیٹ ویو کے حالات پیدا ہوں گے،آہستہ آہستہ، گرمی کی لہر شمالی وسطی مہاراشٹر اور ودربھ میں بھی اپنا اثر دکھانا شروع کردے گی۔ پری مان سون بارشوں کی سرگرمیاں اپریل کے وسط سے ہی شروع ہو جائیں گی، جس سے لوگوں کو شدید گرمی سے کچھ راحت مل سکتی ہے
سال 2020، 2021 اور 2022 میں مارچ کے تیسرے عشرے میں ریکارڈ کئے گئے درجہ حرارت منسلک تصویر میں موجود ہیں۔ یہ درجہ حرارت ظاہر کرتا ہے کہ پچھلے تین سالوں میں ان میں اضافہ دیکھا گیا ہے
خیال رہے کہ ہندوستان میں لیبر پر شدید گرمی کے اثرات کی وجہ سے اس وقت سالانہ 259 بلین گھنٹے ضائع ہو رہے ہیں۔ یہ 110 بلین گھنٹے کے پہلے تخمینہ سے کہیں زیادہ ہے تبدیلیوں کے لحاظ سے، ہندوستان نے گزشتہ20 سالوں کے مقابلے اس صدی کے پہلے 20 سالوں میں سالانہ 25 بلین گھنٹے زیادہ کھوئے ہیں مزید برآں ملک میں اگر درجہ حرارت 3 ڈگری تک جاری رہتا ہے تو زرعی مزدوری کی صلاحیت 17% تک کم ہو جائے گی اور اگر پورے ملک میں اخراج میں کمی کی شدت آتی ہے تو یہ 11% ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
گھر بیٹھے آدھار کارڈ میں اپنا موبائل نمبر یا نام، پتہ تبدیل کریں، جانیں یہ آسان طریقہ
आरबीआई ने पेटीएम पेमेंट्स बैंक को नए खाते खोलने से रोककर झटका दिया।
قومی ترجمان کا ٹیلیگرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کریں!