مفتی محمد نصر الله ندوی
رمضان کے اختتام پر ہر سال عید آتی ہے،جو اپنے دامن میں خوشی ومسرت کا پیغام لیکر آتی ہے،اس بار عید ایک ایسے موقع پر آئی ہے،جب ہر طرف رنج والم اور ظلم وستم کی داستان بکھری ہوئی ہے،رمضان سے پہلے حجاب کا مسئلہ چھیڑا گیا،پھر اذان پر حملہ کیا گیا اور پھر مسجدوں کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی،10 اپریل کو رام نومی کے جلوس میں نفرت وعداوت کے شعلوں کو ہوا دی گئی،سات ریاستوں میں فساد کی آگ بھڑک اٹھی،ابھی اس کے شعلے بجھنے بھی نہ پائے تھے کہ،16 اپریل کو ہنومان جینتی کی چنگاری سے دلی دھواں دھواں ہو گئی ،تلواروں اور طمنچوں سے لیس زعفرانی غنڈوں نے مسجد پر بھگوا جھنڈا لہرانے کی کوشش کی،جب مسلمانوں نے مسجد کے تقدس کو پامال ہوتے ہوئے دیکھا،تو دفاع میں آگئے،مسلمانوں کے تیور دیکھ کر کرایے کے غنڈے بھاگ کھڑے ہوئے،یہ ہزیمت ان کی سرپرستی کرنے والی دلی پولیس کو راس نہیں آئی ،اس نے کاروائی کے نام پر یک طرفہ مسلمانوں پر کریک ڈاؤن کیا اور جب اس سے بھی تسلی نہیں ہوئی تو بلڈوزر کا سہارا لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کمزور اور غریب مسلمانوں کے گھروں کو زمیں بوس کردیا گیا ،سپریم کورٹ نے بروقت اس میں دخل دیا،تاہم سرکار نے اس کو بھی نظر انداز کردیا،جب ظالم کی نیت بگڑتی ہے،تو کوئی دلیل اور حجت کام نہیں آتی ہے،حالیہ دنوں میں بلڈوز سرکاری دہشت گردی کی ایک علامت بن چکا ہے،جس نے عدل وانصاف کے تقاضوں کو اپنے پاؤں سے کچل دیا ہے۔۔۔
مدھیہ پردیش کے کھر گون میں یہی ہوا،جہاں یومیہ کام کرنے والے مزدوروں،لا چار اور بے کس مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر نے تہس نہس کردیا،اب ان کے پاس سر چھپانے کی بھی جگہ نہیں ہے،مسلمانوں کی مظلومیت کی یہ نئی تصویر ہے،جو اس سے پہلے دیکھنے کو نہیں ملی،پہلے نا حق ان کو گرفتار کیا جاتا ہے،پھر ان کے آشیانہ کو زمیں دوز کر دیا جاتا ہے اور ان کے اہل خانہ نیز بچوں کو در در کی ٹھو کریں کھانے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے،اس طرح ان پر دوہری مار پڑتی ہے اور ان کی زندگی تباہی کے دلدل میں پھنس جاتی ہے!!
عید کا موقع ان کیلئے بھی ہے،برکت کے مہینہ میں دست سخاوت دراز کیجئے اور لٹے پٹے مظلوموں کے گھر والوں اور ان کی بچوں کی خبر گیری کیجئے،یہ آپ کا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
دلی پر دوسال کے اندر سرکار کا دوسرا قہر ہے،ابھی کل کی بات ہے،جب این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ سرکاری ظلم وستم کا شکار بنے تھے،شاہین باغ اور جامعہ ملیہ کے احتجاج میں جو لوگ پیش پیش تھے،وہ ابھی تک سلاخوں کے پیچھے ہیں ،ان کے شب وروز زنداں میں گزر رہے ہیں،ان کے بچے یتیمی کی کیفیت سے دوچار ہیں،کوئی ان کا پرسان حال نہیں،عید ان کیلئے بھی ہے،عید کی خوشیوں میں ان کو شریک کرنا آپ کی شرعی ذمہ داری ہے،الله آپ کے اجر کو ہر گز ضائع نہیں کرے گا۔۔