شیموگہ میں دفعہ ۱۴۴ نافذ ، تین دنوں کے لیے اسکول و کالج بند
اس لڑکی کی جرات و عزیمت کو پوری دنیا میں سراہا جا رہا ہے ۔
شیر دل ، شاہین صفت،نو عمر، با حجاب طالبہ نے بھگوادھاریوں کے جے شری رام کے جواب میں نعرہ تکبیر بلندکیا ،
شر پسندوں کے ہجوم میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی رہی ، ریاست بھر میں پرتشدد احتجاج ،شیموگہ میں دفعہ ۱۴۴ نافذ ، تین دنوں کے لیے اسکول و کالج بند
کرناٹک ،9 فروری (قومی ترجمان) کرناٹک میں حجاب کے آئینی حقوق کو لے کر طالبات اپنے موقف پر سختی سے قائم ہیں ۔کل مسکان نامی ایک نو عمر طالبہ نے پوری امت مسلمہ کا سر فخر سے اونچا کر دیا جب پی ای سی کالج میں بھگوادھاریوں کے نرغے اور جے شری رام کے نعروں کے درمیان اس نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی ۔اس لڑکی کی جرات و عزیمت کو پوری دنیا میں سراہا جا رہا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں
گھر بیٹھے آدھار کارڈ میں اپنا موبائل نمبر یا نام، پتہ تبدیل کریں، جانیں یہ آسان طریقہ
ادھر پورے کرناٹک کے کئی اضلاع میں پر تشدد مظاہرے ہو رہے ہیں، تعلیمی اداروں کو بند کر دیا گیا ہے ۔ہائی کورٹ میں سماعت ایک دن کے لیے ملتوی کر دی گئی ۔
دوران سماعت ہائی کورٹ کے جج نے کہا آئین ہمارے لیے بھگوت گیتا ہے تو دوسری طرف جج نے یہ بھی کہا کہ ہم قرآن کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکتے ۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق مسکان نے انڈیا ٹوڈے کو انٹرویو میں بتایا کہ ان لوگوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا اور جے شری رام کے نعرے لگائے میں نے جواب میں اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ۔اس دوران پرنسپل اور اساتذہ نے تحفظ فراہم کیا ۔
ہائی کورٹ میں سماعت :
جسٹس ڈکشٹ نے زبانی کہا "میں تحمل سے سن رہا ہوں لوگوں کو آئین پر اعتماد ہونا چاہیے! صرف ایک شرارتی طبقہ ہی معاملے کو گرمائے گا لیکن احتجاج کرنا، سڑک پر جانا، نعرے لگانا، طلباء پر حملہ کرنا، اچھی چیزیں نہیں ہیں۔ عدالت کو ڈسٹرب نہ کریں آپ ججوں کو سکون کے لیے چھوڑ دیں، فرض کریں اگر میں ٹی وی پر آگ اور خون دیکھوں تو جج پریشان ہو جائیں گے، دماغ پریشان ہو گا تو عقل کام نہیں کرے گی۔” بنچ کی طرف سے دیا گیا حکم یوں رہا :
"معاملے کی مزید سماعت کے لیے یہ عدالت طلباء برادری اور عوام سے امن و سکون برقرار رکھنے کی درخواست کرتی ہے۔ اور امید ہے کہ اسے عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ یہاں تک کہ سماعت کے آغاز میں عدالت نے واضح کیا "ہم عقل اور قانون کے مطابق کام کریں گے نہ کہ جذبے یا جذبات سے۔” عدالت نے مزید کہا، "تمام جذبات کو باہر رکھیں، ہم ہندوستان کے آئین کے مطابق چلیں گے اور یہ میرے لیے بھاگوت گیتا ہے، میں نے جو حلف اٹھایا ہے اس پر عمل کروں گا۔ یہ مجھ سے پہلے تمام فریقوں پر لاگو ہوتا ہے بشمول ایڈوکیٹ جنرل۔ "بھی شامل ہے۔”
یہ بھی پڑھیں
جانیں ای-شرم کارڈ کے لیے کون-کون دے سکتا ہے درخواست ؟ اور کیا ہیں ای شرم کارڈ کے فائدے
جسٹس ڈکشٹ نے سڑکوں پر احتجاج کرنے والے طلباء کے مناظر پر تشویش کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ یہ "خوشگوار منظر نہیں ہے”۔ سماعت کے دوران کامت نے کہا کہ ایک کالج نے حجاب پہننے والی طالبات کو کالج میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی لیکن انہیں دوسری طالبات سے الگ بیٹھنے کو کہا گیا۔ کامت نے کہا کہ یہ "مذہبی نسل پرستی” ہے، جس سے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ تاہم ایڈووکیٹ جنرل نے اس بیان پر سخت اعتراض کیا اور اسے ’’بے بنیاد الزام‘‘ قرار دیا۔ کامت نے یہ بھی بتایا کہ لڑکوں کے حجاب پہنے لڑکی پر حملہ کرنے کے مناظر تھے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے بھی اس پر اعتراض کیا تھا۔ اے جی نے کہا، "اس طرح کے بیانات غلط سگنل دیں گے۔
عدالت میں سماعت کے دوران میں جو کچھ بھی کہہ رہا ہوں کوئی احتجاج، بند وغیرہ نہیں ہونا چاہیے اور حجاب میں لڑکیوں پر حملہ جیسے بیانات خطرناک ہیں۔آئین پر اعتماد رکھیں، فیصلہ کا انتظار کریں ۔
ان خبروں کو بھی پڑھیں
- جمعیت علماء اتردیناجپور کا انتخابی عمل
- تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ
- سکشمتا 2.0 میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات
بشکریہ، اردو ٹائمز