اہم خبریںمضامین

صلح کرنا،کرانا حبیبِ لو لاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک حصہ!




آج کل ذ رہ ذ رہ سی بات پر لڑا ئی جھگڑا عا م ہو گیا ہے ،نفسا نفسی کا عالم ہے۔ اب تو حال یہا ں تک پہنچ گیاہے کہ معمو لی معمولی سی بات پر قتل کر دینا عام ہو گیا ہے۔ چھو ٹی سی بات پر باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو، بھائی بھائی کو اور بھا ئی بہن کو، شو ہر بیوی کو اور قریبی رشتے دارو دوست کو مار ڈ النے کو تیار ہو جا تا ہے انسان کی جان مچھر اور مکھی سے بھی کمتر ہوگئی ہے۔ آئے دن قتل کے وا قعات بڑھ ر ہے ہیں ۔ بوریوں اور سوٹ کیسوں میں بھر ی لاشیں مل رہی ہیں روزانہ درجنو ں جھگڑے اور قتل کے واقعا ت معمول کی بات ہو گئی ہیں ۔ کسی کو احساس زیاں (نقصان، خسا رہ ) T DETRIMENتک نہیں ہو رہا ہے ،قاتل ناحق کے دل میں انسا نیت کے درد کی رمق تک باقی نہیں رہی ہے۔ اس کا دل محبت،ہم در دی، انکسا ر ی اور انسان دوستی سے خا لی ہو چکا ہے حتیٰ کہ انسان انسان کے خون کا پیا سا بن چکا ہے آ ج کا انسان شاید اللہ اور اس کے رسولﷺ کے وہ احکا مات نہیں پڑ ھا ہے۔ جوبے و جہ لڑائی جھگڑا ورقتل نا حق کی وعید میں نازل ہوئے ہیں اللہ رب العز ت نے قتل نا حق کی مذ مت کر تے ہوئے قرآن مجیدمیں سخت وعید نازل فر مائی ہے۔ ( القر آن، سو رہ نساء: 93)تر جمہ : اور جو سخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کر ے تو اس کی سز ا دو ز خ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہو گا اور اللہ اس پر لعنت کرے گا اور اسنے اس کے لیے زبر دست عذا ب تیا ر کر رکھا ہے۔  (کنزالایمان)

تشدد کا بڑ ھتارجحا ن صلح سے دوری لمحہ فکر یہ !:ہما رے معا شرے میں ہی کیا پورے ملک، پوری دنیا میں تشدد کا بڑھتا رجحان انتہائی تشویش کا باعث ہے۔اللہ ربا لعز ت نے اپنے بندوں کو صلح کر انے کا حکم دیا اور صلح کرنے کرا نے والوں کو پسند فر ما نے کی خوش خبری بھی سنائی (القر آ ن، سور ہ الحجرات: 9) تر جمہ: اگر مسلما نوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کریں تو ان کے در میا ن صلح کرا دیا کرو، پھر اگر ان میں سے ایک ( گرو ہ)دوسرے پر زیادتی اور سر کشی کرے تو اس(گروہ) سے لڑو جو زیا دتی کا مر تکب ہو رہا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے،پھر اگر وہ رجوع کر لے تو دو نو ں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو، بے شک اللہ انصا ف کر نے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ ( کنز ا لا یما ن)صلح کرا نا اللہ کو پسندہے حد یثوں میں بھی اس کی فضیلت آئی ہے مذکورہ آیت کا شا ن نرول حدیث پاک میں اس طرح سے ہے حضرت انس رضی اللہ تعا لیٰ عنہ‘ نے بیان کیا کہ نبی کریم  ﷺ سے عرض کیا گیا ، اگر آپ ابن ابیٔ(منا فق)کے یہاں چلتے تو بہتر تھا۔آپ  ﷺ اسکے یہاں ایک گدھے پر سوار ہوکر تشر یف لے گئے۔صحابہ رضوا ن ا للہ علیہم اجمعین پیدل آپ کے ہمراہ تھے۔جدھر سے آپ  ﷺ گزر رہے تھے وہ شو ر (ریگستا ن) ز مین تھی ۔

جب نبی کریم  ﷺ اسکے یہاں پہہنچے تو وہ کہنے لگا ذرہ آپ دور ہی رہیئے آپمکے گدھے کی بونے میرا دماغ پریشان کر دیا ہے اس پر ایک صحا بی بولے کہ اللہ کی قسم !  رسول اللہ  ﷺ کا گدھا تجھ سے زیا دہ خوشبو دار ہے۔عبداللہ(منافق) کی طرف سے اس کی قوم کا ایک شخص اس صحا بی کی اس بات پر غصہ ہو گیا اور دو نو ں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا پھر دو نوں کے حما یتی مشتعل ہو گئے اور ہاتھا پائی ،چھڑی اور جوتے تک نوبت پہہنچ گئی۔ ہمیں معلو م ہوا ہے کہ یہ آیت وَ اِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَ صْلِحُوْا بَیْنَھُمَافَاِنْ بَغَتْ اِحْدَاھُمَا۔۔۔۔۔۔۔الخ(القرآن سورہ الحجرات :9)’’اگر مسلما نوں کے دو گروہ آپس میں لڑ یں تو اِن میں صلح کرا دو‘‘  (بخا ری ، باب لوگوں میں صلح کرا نے کا ثواب ، حدیث  2691)۔

صلح کرا نے کے لیے جھو ٹ بو لنا گنا ہ نہیں :صلح کرانے میں جھو ٹ بھی بو ل سکتے ہیں ام کلثو م بنت عقبہ سے روایت ہے نبی کریم  ﷺ کو یہ فر ما تے سنا تھا کہ جھو ٹا وہ نہیں ہے جو لو گو ں میں باہم صلح کرا نے کی کو شش کرے اور اس کے لیے کسی اچھی

بات کی چغلی کھا ئے یااسی سلسلے کی اور کوئی اچھی بات کہہ دے(بخا ری، حدیث 2692) سہل بنی اسعدرضی اللہ عنہ‘ نے بیان کیا کہ:قبا کے لوگوں نے آپس میں جھگڑا کیا اور نو بت یہا ں تک پہنچی کہ ایک دوسرے پر پتھر پھینکے ،آپ  ﷺ کو جب اسکی اطلاع دی گئی تو آپ  ﷺ نے فر مایا’’چلو ہم ان میں صلح کرائیں گے ‘‘(بخا ری،باب حا کم لو گوں سے کہے ہم کو لے چلو ہم صلح کرا دیں حدیث  26)۔

صلح حدیبیہ جس کو قر آن نے فتح مبین فر مایا:ماہ ذیقعدہ ۶؍ ھجری میں حضور  ﷺ عمرہ ادا کر نے کے ارادے سے  مدینہ سے مکہ تشریف لے جا نے کے لیے سفر میں نکلے مشرکین مکہ نے مسجد الحرام کی زیا رت سے روک دیا آپ  ﷺنے مشر کین مکہ اور قریش سے حدیبیہ کے مقا م پر صلح فر ما یا۔اس کی دستا ویزAGREEMENT حضر ت علی رضی اللہ عنہ نے لکھی تھی لکھتے وقت آپ نے ’’بسم ا للہ الرحمن ا لر حیم‘‘لکھا مشرکین مکہ و قریش کے نما ئند ہ نے اسے قبول نہیں کیااور کہا کہ ز مانہ جا ہلیت کے طریقہ پر ’’با  سمک اللھم ‘‘ لکھنا پڑ ے گا ، آپ  ﷺ نے اسے قبو ل کر لیا ۔ آپ کا اسم گرا می ’’محمد ا لر سو ل اللہ ‘‘لکھا گیا  مشرکین مکہ نے ا س پر اعترا ض کیا کہ لفظ محمد کے سا تھ رسول اللہ نہ لکھو ،کیو ں کہ آپ رسو ل ہو تے تو ہم آ پ سے لڑ تے ہی کیو ں ؟ قریش ضدپراڑ گئے آپ  ﷺ  ایک طرفہ صلح کر نے کے لیے اس پر بھی راضی ہو گئے آ پ  ﷺ نے حضر ت علی رضی اللہ عنہ سے فر مایا رسو ل اللہ کا لفظ مٹا دو ، حضر ت علی نے  کہا میں تو ا سے نہیں مٹا سکتا ، تو آپ  ﷺ نے خود اپنے ہا تھ سے مٹا دیا اور مشر کین کے ساتھ اس شر ط پر صلح کی کہ آپ اپنے اصحا ب کے ساتھ ( آ ئندہ سا ل) تین دن کے لیے مکہ آ ئیں اور ہتھیا ر میا ن میں رکھ کر دا خل ہو ں گے۔حضر ت عمر رضی اللہ عنہ سے بر دا شت نہ ہو سکا  اور انھو ں نے جو ش جذ بات میں کچھ ایسے الفا ظ فر مائے کہ ہمیشہ(اس پر) شر مندہ رہتے تمام صحا بہ انتہا ئی جذبات میں احرام کھول کر ایک دوسر ے کے سر مونڈ ھنے لگے اور ایسا کر رہے تھے کہ جیسے ایک دوسرے کی گردن کا ٹ دیں گے ۔لیکن اللہ رب العز ت نے اس صلح کو جو بظا ہر ذلت آمیز تھی ’’فتح مبین ‘‘ قرار دیا اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحْاًمُّبِیْناً ۔۔۔۔۔۔ الخ  تر جمہ:
بے شک( اے نبی )ہم نے آپ کو کھلم کھلا فتح دی ۔ (بخا ری و مسلم حد یث  2698،2699،2700، 2701،2693 راوی محمد بن بشار ، شعبد، ابو اسحا ق، برا بن عاذب رضو ان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین وغیرہ وغیرہ اور بھی احا دیث مو جود ہیں مطا لعہ فر مائیں ۔ حضرت بر اء رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں تم فتح مکہ کو فتح شما ر کرتے ہو اور ہم بیت

ا لر ضو ان کے واقعہ کو فتح مانتے ہیں ہم چو دہ  1400 سوآدمی رسول اللہ  ﷺ کے ساتھ اس مو قع پر تھے صلح حدیبیہ کے مو قعہ پر ایک درخت کے نیچے صحابہ کرام نے آ قا  ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی اسی مقا م پر صلح حدیبیہ ہوئی (بخا ری) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مر وی ہے کہ صلح حدیبیہ کے وا پسی سفر میں آپ  ﷺ نے فرما یا گذ شتہ شب میں مجھ پر ایک سو رت اتری جو مجھے دنیا اور دنیاکی تمام چیز وں سے زیادہ محبو ب ہے پھر آپ نے( اِنّا فَتَحْنَا) کی تلا وت کی ‘‘(بخا ری، تر مذ ی، نسائی، مسنداحمد) صلح حدیبیہ سے بہت بر کت حا صل ہوئی،لو گوں میں امن و اما ن قا ئم ہوا، مسلما ن کا فروں میں بول چا ل شرو ع ہو گئی ۔علم وایمان کی روشنی تیز ی سے پھیلنی شرو ع ہو گئی ، آپ  ﷺ فرماتے ہیں در گذر کرنے سے عز ت بڑ ھتی ہے اور عا جزی و انکسا ری کر نے سے بلند ی اور عالی رتبہ حا صل ہو تا ہے۔ (حد یث )

صلح کی اہمیت و فضیلت فوائد:

خانگی زند گی ہو یا معا شرتی کبھی ایسے حا لا ت آ جا تے ہیں کہ لو گوں میں جھگڑ ے کی نو بت آجا تی ہے

خد نخوا ستہ گھر یلو زند گی میں اگر ایسی نو بت آجا ئے تو اللہ رب العز ت فرما رہا ہے ثا لثی مقر ر کر کے صلح کرلو قر آن مجید میں ہے ۔  وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَماً مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَماً مِّنْ اَھْلِھَا۔۔۔۔۔۔۔الخ ( القر آن سو رہ  نسا ء : 35 ) تر جمہ :اگر تمھیں میا ں بیوی کے در میان مخا لفت( ان بن) کا اندیشہ ہو تو تم ایک منصف مرد کے خا ندان سے اور ایک منصف عورت  کے خا ندان سے مقر ر کر لو ، اگر وہ دو نوں (منصف) صلح کرا نے کا ارا دہ رکھیں تو اللہ ان دو نو ں کے در میا ن موا فقت پیدا فر ما دے گا، بیشک اللہ خوب جا ننے والا اور خبر دار ہے ،(کنزالایمان) میا ں بیوی کے درمیان اگر رنجش،بگا ڑ ہو تو علمائے کرام فرماتے ہیں اور شارع علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایمان دار اور سمجھ دار شخص کو مقر ر کرے جو یہ دیکھے ظلم و زیا دتی کس طرف سے ہے پس ظا لم کو ظلم سے روکے ،سمجھائے اس سے بات نہ بنے تو مرد والوں و عورت والوں کی طرف سے ایک بہتر دین دار شخص کو منصف مقر ر کر دیں (شا رع علیہ ا لسلا م) نے اس بات کی طرف شو ق دلایا ہے کہ جہا ں تک ہو سکے کو شش کریں کہ کوئی شکل نبھاہ کی نکل آئے اگر شو ہر کی غلطی ہے تو عو رت کو اس سے روک لے اور اس کا خرچ دلائے ا ور سمجھائے اور اگر عورت کی طرف سے زیا دتی ہو تو عورت کو الگ کریں ( مرد اس کا خرچ بند کردے) لوگ اسکو سمجھائیں اسکو مجبور کریں کہ اپنی عادت ٹھیک کر ے اور شوہر کو بھی سمجھا ئیں کہ ہنسی خوشی رہے۔


قرآن پاک میں متعد دجگہ آئی ہے رسول پاک  ﷺ کی سنت بھی ہے خود آپ  ﷺ کی زند گی میں ایک بارحضر ت عا ئشہ صد یقہ رضی اللہ تعا  لیٰ عنھا کے درمیا ن کو ئی بات ہو گئی تو آپ نے  پو چھا: کیاتم عمر کو حَکَم بنا ئو گی ؟ حضر ت عائشہ رضی اللہ عنھا نے عر ض کیا: نہیں ، کیوں کہ وہ سخت مزا ج ہیں ، پھر آپ  ﷺ نے پو چھا: کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ تمھا رے والد میر ے اور تمھا رے بیچ فیصلہ کریں ؟ حضر ت عائشہ نے کہا : ہاں ۔ آ پ  ﷺ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا ۔ جب حضر ت ابو بکررضی اللہ عنہ تشریف لے آ ئے تو آپ ﷺ نے در یا فت فر مایا کہ تم بات کرو گی یا میں بات کروں ؟اُم المو منین نے عرض کیا:آپ ہی با ت کریں لیکن صحیح صحیح بولیں حضر ت ابو بکر صد یق رضٰی اللہ عنہ یہ سن کرسخت غصہ ہو گئے،اور حضر ت عائشہ رضٰی اللہ عنھا کو ایک طما نچہ مار دیا، حضر ت عائشہ بھاگیں اور آپ  ﷺکی پیٹھ کے پیچھے چھپنے لگیں ،حضور ﷺ نے حضر ت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرما یا: میں نے آپ کو اس لیے نہیں بلا یا تھا۔ پھر جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے تو آپ نے حضرت عائشہ کو قریب  بلا یا ، مگر انھو ں نے آ نے سے انکا ر کر دیا ،آپ مسکرائے اور فر مایا:ابھی کچھ دیر پہلے تو تم میری پیٹھ سے چمٹے جا رہی تھیں ، پھر جب حضر ت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشر یف لائے اور دو نوں کو ہنستے ہو ئے دیکھا ، تو فر ما یا : آپ دونو ں نے اپنے اختلا ف میں ہمیں شریک کیا تھا ، تو اپنی صلح میں بھی ہمیں شریک کر لیں (ابو دا ئود: 4999)

مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں :

اللہ رب العزت ارشاد فر ما رہا ہے ( القرآن،سورہ الحجرا ت : 10)  ترجمہ: (یاد رکھو)سب اہل ایما ن(آپس میں ) بھائی ہیں ۔ سو تم اپنے دونوں بھائیو ں میں صلح کرا دیا کرو، اور اللہ سے ڈر تے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جا ئے ۔ آج احکا م اِلٰہی کی پا بندی سے دوری ہی ہماری لڑائی اور جھگڑے کی وجہ ہے اور ہما رے اندر بر داشت کی قوت ختم ہو تے جا رہی ہے جسکی وجہ سے بے چینی ، بدا منی ،تشد د، ذ رہ سی با ت پر قتل تک کر بیٹھتے ہیں اوپوری زند گی بر باد کر لیتے ہیں نہ خو د چین سے رہتے ہیں ۔ نہ دوسر ے کو چین سے رہنے دیتے ہیں قتل نا حق کے بارے میں قر آ ن مجید میں بہت سی وعید یں آئی ہیں ۔ اِرشا د باری تعالیٰ ہے وَلَا تَقْتُلُوْا نَّفْسَالَّتِیْ۔۔۔۔۔۔۔۔الخ ( بنی اسر آ ئیل : 33) ترجمہ:قاتل کے دل میں انسا نیت کا درد ختم ہو جا تا ہے اس کا دل محبت، ہم در دی،انکساری اور انسان دوستی سے خا لی ہو جا تاہے، سماج کے ذ مے دار لو گو ں کو حالات پر غو ر کرنے کی ضرو رت ہے اور جو بن پڑے اپنی طا قت بھر کو شش کر نا چا ہئے۔ جہاں لڑائی جھگڑا نظر آئے وہاں میل ملا پ صلح کرا ئیں اور اللہ کی بار گاہ میں پسند یدہ بندہ ہو نے کا شرف حا صل کریں اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو صلح کرنے کر انے کی تو فیق عطا فر ما ئے آ مین ثم آمین-

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button