سمستی پور: فروغِ اُردو کے ٹھیکیداروں نے چند سکوں میں اپنی ضمیر فروخت کر ڈالا : قاری مصطفیٰ
سمستی پور (نمائندہ)فروغ اردو سیمینار سمستی پور کا انعقاد ایک ہال میں منعقد ہوا، عجیب بات ہے کہ اس سیمینار سے صحافیوں اور محبان اردو کو کوسوں دور رکھا گیا۔
یہ روداد فروغِ اُردو دلسنگھ سرائے کے بلاک سکریٹری قاری محمد مصطفیٰ نے کہیں۔ انہوں نے کہا کہ،پورے ضلع سے اردو اساتذہ کی حاضری ہوئی۔اس میں بھی اساتذہ گھنٹوں کھڑے رہے پر ان کے بیٹھنے کا انتظام تک صحیح سے نہیں کیا گیا ۔
اساتذہ ادھر ادھر بھٹکتے ہوئے ہال سے باہر اپنی گاڑی پر ہی بیٹھ کر خود کو شریکِ سیمینار سمجھتے رہے ،لیکن اردو کے ان سوداگروں کو کوئی فرق نہیں پڑا ۔ان ضمیر فروشوں کی غیرت مردہ ہوگئ ۔ انہیں تو کرسی بھی ملی اور روپے سے بھرا لفافہ بھی ملا۔پچھلے سال بھی اسی طرح فروغ اُردو سیمینار سے محبان اردو اور صحافی حضرات کو دور رکھا گیا تھا ۔ اس وقت ان بےغیرتوں ، چند سکوں میں اردو کی عزت نیلام کرنے والوں نے یقین دلایا تھا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا ۔پر ضمیر فروشوں نے وہی حرکت کی۔
اس سے اردو کا فروغ کتنا ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا پر مقالہ نگار کی جیب ضرور بھر گئی۔اردو کا جنازہ اسی قسم کے ضمیر فروش پڑھیں گے اور پڑھائیں گے۔ان کا شیوہ ہی یہی ہے۔بس چند نام ،چند اشخاص،جن میں اکثر کو پتہ نہیں کہ مقالہ کا مادہ کیا ہے،طرز القا،کیسا ہونا چاہئے،کہاں رکنا ہے ، اتار چڑھاؤ کیا چیز ہے ، تلفظ کی ادائیگی کیسی ہونی چاہئے ، انہیں رونق اسٹیج رکھ کر چند سکہ تھماکر رخصت کرنا ہی فروغ اردو سمجھا جاتا ہے۔
اس لئے اردو کا فروغ دور دور تک نظر نہیں آتا البتہ اردو پر پستی کے بادل چھاتے ضرور نظر آتے ہیں۔
غضب کی بات تو یہ ہے کہ جب ہم نے اس ضمن میں اُردو کے کچھ ٹھیکیداروں سے بات کی کہ فروغِ اردو سیمینار و مشاعرہ کی تشہیر کیوں نہیں کی گئی تو انہوں نے ہمیں بہت ہی اچھی انداز میں یہ سمجھایا کہ اس پروگرام میں زیادہ لوگوں کی شرکت پر اوپر سے ہی پابندی عائد کی گئی ہے حالات صحیح نہیں ہے،اس وجہ سے تشہیر وغیرہ نہیں کیا گیا۔