مضامین

"زاویۂ نظر کی آگہی” میرے مطالعہ کی روشنی میں

عبدالرحیم برہولیاوی، استاد معھدالعلوم الاسلامیہ، چک چمیلی، سرائے، ویشالی، بہار

ابھی میرے سامنے سید محمود احمد کریمی (ایڈوکیٹ)، محلہ سیناپت، دربھنگہ کی پہلی تخلیقی تصنیف ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ "زاویۂ نظر کی آگہی” ہے۔ محمود کریمی صاحب کی یہ پہلی تخلیقی تصنیف ضرور ہے؛ مگر وہ ترجمہ نگاری کے میدان کے ماہرین میں ہیں، اردو و انگریزی دونوں زبانوں میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں؛ اسی لیے اس صنف میں اردو سے انگریزی میں ابھی تک گیارہ (11) کتابوں کا ترجمہ کرچکے ہیں، جو شائع ہوکر مقبول خاص و عام ہوچکی ہیں۔ وہ کتابیں درج ذیل ہیں:

1: عضویاتی غزلیں (organvise ghazlen)،
2: ہر سانس محمد پڑھتی ہے (Encomium to Holy Prophet )،
3: بکھری اکاییاں (Assortment of short stories )،
4: قصیدہ بردہ شریف (Qasidah Burdah sharif )،
5: سورہ یاسین شریف (Surah Yaseen Sharif )،
6: قربتوں کی دھوپ (Proximal warmth )،
7: کچھ محفل خوباں کی (Closet of beauties )،
8: شبنمی لمس کے بعد ناول (After Dewy palpalibity )،
9: نبیوں میں تاج والے نعت شریف (Nabiyon Mein Taj Wale)،
10: لمسوں کی خوشبو بیاض (Fragrance of palpation )،
11: نظمیچہ ثلاثہ ( Triliterality)

کیا آپ راشن کارڈ بنوانا چاہتے ہیں؟ یہاں کلک کریں! بہار میں راشن کارڈ کے لیے آن لائن درخواست شروع، جلدی کریں رجسٹریشن، یہاں جانیں درخواست دینے کا طریقہ

محمود کریمی صاحب کی ترجمہ نگاری کا یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، آپ انگریزی زبان پر اچھی دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان پر بھی اچھی پکڑ رکھتے ہیں، جیسا کہ میں اوپر تذکرہ کرچکا ہوں۔ انہون نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں M.A کیا ہے، وکالت کی بھی تعلیم حاصل کی۔ زمیندارانہ ماحول میں پرورش پائی اور بچپن سے ہی علم ادب کا ماحول پایا، ادبی ذوق بچپن سے ہی پنپتا رہا پوسٹ گریجویٹ اور وکالت کی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد لکھنے کا شوق پیدا ہوا، پہلا مضمون انگریزی می ہی: Iqbal and his missions کے عنوان سے لکھا، اس کے بعد شکوہ کا انگریزی ترجمہ کیا، اب تک ترجمہ کا یہ سلسہ جاری ہے، اللّٰہ کرے یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے۔

مصنف نے وکالت کی تعلیم حاصل کی، مگر اس کو پیشہ اور ذریعۂ معاش نہیں بنایا؛ بلکہ دربھنگہ میں ہی اسکول اور کالج میں انگریزی زبان کے درس و تدریس سے ایک عرصہ تک جڑے رہے، اب مستقل طور پر ترجمہ نگاری کے کام میں لگے ہوئے ہیں، سید محمود احمد کریمی دیکھنے میں دبلے پتلے کمزور ضرور ہیں، مگر کام کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ اچھے اچھے جوان بھی ان کے سامنے فیل ہیں، اللّٰہ سلامت رکھے، عمر دراز ی عطا فرمائے، آمین۔

کیا آپ موبائل فون سے ووٹر کارڈ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں؟ یہاں کلک کریں! Mobile phone میں ہی ڈاؤن لوڈ کریں Digital ووٹر کارڈ (Voter Card) ، ووٹنگ کے ساتھ فوٹو آئی ڈی میں بھی آئے گا کام، ڈاؤن لوڈنگ کا جانیں طریقہ

مصنف نے اپنی کتاب "زاویۂ نظر کی آگہی” کا انتساب پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کے نام کیا ہے۔ 144 صفحات کی اس کتاب کو تین مرکزی عناوین کے تحت تقسیم کیا گیا ہے، پہلا مرکزی عنوان "کوائف” ہے، صفحہ 6 تا 8 پر مصنف نے ضروری باتیں کے عنوان سے کتاب کے حوالہ سے روداد پیش کی ہے، صفحہ 8 تا 12 پر سوانحی خاکہ، اپنی زندگی کی تفصیل، اپنے مضامین و مقالات اور ترجمہ کی گئیں کتابوں کا ذکر اور اعزازات کا ذکر تفصیل سے پیش کیا ہے۔ صفحہ 13 اور 14 پر شجرۂ نسب درج ہے، مصنف نے پہلے دادیہال پھر نانیہال کا شجرۂ نسب درج کیا ہے، شجرۂ نسب محفوظ کرنے کا رواج اب تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے، لوگ اپنے باپ دادا کے بعد کے نسب کو بھلاتے چلے جارہے ہیں۔ دوسرا مرکزی عنوان "تاثرات” کے عنوان سے شروع ہو تا ہے، جس میں سب سے پہلے 15 تا 16صفحہ پر پروفیسر عبدالمنان طرزی صاحب کا منظوم کلام "محمود احمد کریمی:مرحبا” کے عنوان سے درج ہے، پھر توشیحی نظم پروفیسر عبدالمنان طرزی صاحب کی درج ہے،

جو انہوں نے محمد احمد کریمی صاحب کے لئے لکھی ہے، مصنف نے توشیحی نظم کو انگریزی ترجمہ کے ساتھ درج کیا ہے، جو کہ صفحہ 17 تا 23 پر درج ہے، صفحہ 23 پر منظوم کلام بہ عنوان "نذر محمود احمد کریمی” شاہد حسن قاسمی تابش صاحب کی درج ہے، صفحہ 24 پر عبدالاحد ساز ممبئی کا منظوم تاثر درج ہے، اس کے بعد منظوم ختم ہو کر صفحہ 25 تا 33 پر ڈاکٹر احسان عالم، پرنسپل الحرا پبلک اسکول دربھنگہ کی تحریر بہ عنوان "سید محمود احمد کریمی: شخصیت،مضامین اور فن ترجمہ نگاری ” درج ہے، ڈاکٹر احسان عالم صاحب نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور اچھا لکھا ہے، احسان عالم لکھتے ہیں: دیر آید درست آید، ایک بڑا اہم مقولہ ہے، سید محمود احمد کریمی نے اپنی زندگی کے 80-85 سال گزارنے کے بعد ایک بار پھر اردو ادب کی جانب اپنا رخ کیا، اس بار انہوں نے اس دل جمعی سے اردو اور انگریزی زبان کا سنگم تیار کیا ہے کہ لوگ حیران ہیں کہ اس عمر میں بھی کام کیا جاسکتا ہے، اگر انسان حوصلہ رکھے تو کسی بھی عمر میں پورے جوش و خروش سے کام کیا جاسکتا ہے، ان کا کارنامہ نئی نسل کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ صفحہ 34 تا 38 پر ڈاکٹر منصور خوشتر ایڈیٹر دربھنگہ ٹایمز کی تحریر "سید محمود احمد کریمی” کے عنوان سے درج ہے۔ منصور خوشتر لکھتے ہیں: محمود احمد کریمی کے مقالات نہایت دلکش اور سادہ و سلیس ہوا کرتے ہیں، پیشکش کا انداز نہایت دلچسپ اور لائق توجہ ہے، عبارت صاف، رواں اور سلیس ہے، انہیں انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے، جس کی وجہ سے آپ کے ترجمے میں صحیح الفاظ ملتے ہیں۔

کیا آپ کے پین کارڈ میں نام یا تاریخ پیدائش غلط اندراج ہے اور آپ تصحیح کرنا چاہتے ہیں؟ یہاں کلک کریں! پین کارڈ کی تصحیح: PAN میں غلط ہے نام اور تاریخ پیدائش، تو گھر بیٹھے کریں تصحیح، جانیں E-Pan کارڈ حاصل کرنے کا طریقہ

تیسرا مرکزی عنوان "مقالے” ہے، جہاں سے مصنف کے اپنی تخلیق مقالے شروع ہوتے ہیں، صفحہ 48 تا 54 پر "شیخ مجد کا تصور توحید ” ہے‌۔ صفحہ 55 تا 62 پر”اقبال کا تصور خودی” درج ہے۔ پھر مقالہ بہ عنوان "اقبال کی تخلیقی قوت” ہے، اس کے بعد صفحہ 74 تا 129 پر دور ہا باید، دو قومی نظریہ اور تقسیم ہند کا تخیل، ظفر کی شاعری زندان میں، تنقید کے ضمن میں، تعلیم کی افادیت، حملہ کے وقت تجزیہ، پیغمبر پور اسٹیٹ کی ادبی ثقافتی خدمات، درد دل مسلم، جیسے اہم عناوین سے مضامین درج ہیں، سب سے اخیر میں "علامہ اقبال کا پیغام عمل” کے عنوان سے آخری مضمون صفحہ 135 تا141 موجود ہے، سید محمود احمد کریمی کے تمام مضامین اور مقالات کافی اہم اور معلوماتی ہیں، انہوں نے ان سب کو کتابی شکل میں محفوظ کرکے ایک بڑا کام کیا ہے، اس کے بعد انہوں نے جتنی کتابوں کا اب تک ترجمہ مکمل کرلیا ہے اور وہ شائع ہوگئی ہیں، ان کی فہرست پیش کی ہے۔

ان خبروں کو بھی پڑھیں

صفحہ 38 تا 41 پر ایڈوکیٹ صفی الرحمٰن راعین، میلان چوک، دربھنگہ کی تحریر "محمود کریمی کی ادبی خدمات” درج ہے، صفی الرحمٰن راعین صاحب لکھتے ہیں: محمود کریمی ماہر اقبالیات ہیں، اقبال کی شخصیت، ادبی فن، بلند تر اسلامی نظریات، جذبات اور روحانیت پر آپ نے پر مغز مقالات تحریر کیا ہے، جس میں حیات انسانی کے تمام گوشوں پر اقبال کے اسلامی افکار کی عکاسی موجود ہے۔ صفحہ 42 تا 47 پر محترم ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی کی تحریر بہ عنوان "ترجمہ کی مشین :سید محمود احمد کریمی” درج ہے، ڈاکٹر ابرار اجراوی لکھتے ہیں سید محمود احمد کریمی عصر حاضر میں تنقید و ترجمہ کی دنیا کا ابھی اہم اور معتبر نام بن گیا ہے، ان کی شخصیت کے کئی رنگ ہیں۔ ان کا ذہنی زاویہ کسی حصار میں مقید نہیں ہے۔ وہ ضعیف العمری میں بھی ہر دم سرگرم اور متحرک رہتے ہیں، یہی سبب ہے کہ وہ برھتی عمر کے ساتھ علمی اور ادبی مشغولیتو ں کے چمنستان میں بھی گل بوٹوں کا اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔

کتاب کے پیچھے مصنف کی تصویر بھی موجود ہے، کتاب کی اشاعت سال 2021ء میں بہار اردو سکریٹیٹ محکمہ کابینہ (راج بھاشا اردو) کے جزوی مالی تعاون سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی سے ہوئی ہے۔ کمپوزنگ کا کام ڈاکٹر احسان عالم نے کیا ہے، پروف کی غلطیاں نہیں ہیں، ٹائٹل پیج خوبصورت اور ورق عمدہ ہے، آپ بھی اس کتاب کو محض 150روپے دےکر نولٹی بک قلعہ گھاٹ دربھنگہ، بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ، ادارہ دربھنگہ ٹایمز ،پرانی منصفی دربھنگہ سے حاصل کرسکتے ہیں۔

ان خبروں کو بھی پڑھیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button