عالمی خبریں

دو بدو

دُوبَدُو
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
محمد امام الہدیٰ انور آفاقی (ولادت ۷؍ اگست ۱۹۵۴ء ) بن حاجی محمد نور الہدیٰ بن مولوی عبد الجلیل بن وعظ الدین بن فرزند علی ساکن ہُدی منزل، راج مولیٰ (بھیگو) دربھنگہ مشہور شاعر ،ا چھے افسانہ نگار اور بہترین نثر نگار ہیں، ان کی شاعری کا مجموعہ غموں کی خوشبو، سفرنامہ دیرینہ خواب کی تعبیر افسانوں کا مجموعہ ، نئی راہ نئی روشنی اور پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی سے گفتگو دوبدو ان کے ادبی مکالمے اور انٹر ویو کا مجموعہ ہے جو انہوںنے پروفیسر آفتاب احمد آفاقی، خلیق الزماں نصرت، ڈاکٹر سلیم خان ،شمیم قاسمی ، ڈاکٹر عبد المنان طرزی ، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد ڈاکٹر منصور خوش تر، نور شاہ اور وعشی سعید سے لیاہے، انور آفاقی کی وسعت ظرفی کی بات ہے کہ انہوںنے اپنے سینئر اور انتہائی جونیر ادیبوں سے ادبی مکالمہ کرنے میں کوئی تفریق نہیں کی ہے، سب سے دل کھول کر گفتگو کی اور پرت در پرت زندگی کے گوشوں کو لوگوں کے سامنے رکھ دیا ہے ۔ آفاقی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے جن حضرات سے مکاملہ کیا ان کے تحت الشعور میں دبی اور چھپی باتوں کو نکال لینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
اس مکالمہ اور انٹر ویو کا خیال آفاقی صاحب کو بعض نامور شعراء وادباء کی تاریخ پیدائش اور ان کے احوال کے اختلاف کو دیکھ کر آیا، ان کی فکر یہ تھی کہ اگر زندگی میں ان حضرات سے گفتگو کرکے ان کی تاریخ پیدائش اور احوال قلم بند کر لیے جائیں ، تو بعد میں محققین کو تحقیق کی وادیاںعبور نہیں کرنی پڑیںگی، اور ان کے احوال ان کی زبانی درج ہونے کی وجہ سے صحیح اور زیادہ معلوماتی ہوں گے، اسی خیال نے دُو بدُو کو وجود بخشا اور اب یہ چھپ کر ہمارے سامنے ہے۔
دو بدو ایک سو چھہتر صفحات پر مشتمل ہے، جس کی قیمت دو سو روپے رکھی گئی ہے ، المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ دربھنگہ کے زیر اہتمام روشان پرنٹرس دہلی سے طبع شدہ یہ کتاب مصنف کے پتہ کے علاوہ ناولٹٰ بکس قلعہ گھاٹ دربھنگہ اور بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ سے حاصل کر سکے ہیں، کتاب کا انتساب ابن صفی کے نام ہے جن کو پڑھ کر آفاقی صاحب نے اردو لکھنا پڑھنا سیکھا، انتساب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فن ادباء سے انہوں نے مکالمہ کیا، ان میں سے بیش تر نے ابن صفی کے جاسوسی ناول کو پڑھ کر ہی لکھنے کا شعور پایا۔
ڈاکٹر عبد الحئی سی ایم کالج دربھنگہ نے انور آفاقی کے انٹر ویو کا تفصیلی جائزہ لیا ہے جو اس کتاب کے شروع میں بطور مقدمہ شامل ہے، انہوں نے لکھا کہ
’’انور آفاقی کے زیادہ تر انٹر ویو شخصی ہیں، اور ذاتیات کا احاطہ کرتے ہیں، میں شخصیات کے انٹر ویو لیے گیے ہیں ان کے بارے میں مکمل معلومات دے دی گئی ہیں، اگر کوئی اسکالر اس شخصیت پر کچھ لکھنا چاہتاہے تو اس کتاب سے اسے کافی مدد ملے گی۔ کتاب کا مطالعہ معاصر افسانوی، تنقیدی تدریسی اور شعری منظرنامے کو سمجھنے میںمعاون ہوگا۔‘‘
اس کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ بات بات میں آفاقی کو انٹرویو دینے والے نے وہ راز بھی اگل دیے ہیں، جو ہندوستان کا دھیرے دھیرے طرۂ امتیاز بنتا جا رہا ہے، مثلا یونیورسٹی اور کالج کی ملازمت حاصل کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا ہے، ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے پورا پورا قصیدہ لکھنا پڑتا ہے، ادبی شخصیت اور نظریات کی تشکیل میں بنیادی عوامل کیا کار فرما ہوتے ہیں، اور کس طرح وہ نظریات شعراء ادباء کے ذہن ودماغ پر چھا جاتے ہیں، او رپوری زندگی اس کو برتتے رہتے ہیں، اس سلسلے میں انٹر ویو کے آخر میں جو پیغام ان ادباء نے دیا ہے وہ بھی انتہائی اہم ہیں، سب کا ذکر کرنا تو ممکن نہیں ہے، لیکن دو ایک اقتباس نقل کرکے اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا، آفتاب احمد آفاقی کہتے ہیں:
’’علم وادب میں جلد بازی مضر ہے،آپ پلک جھپکتے ادیب یا نقاد کبھی نہیں بن سکتے، اس کے لئے محنت شاقہ درکار ہے۔ آپ اس پر مت جائیے کہ کون کتنا لکھ رہا ہے؟ آپ یہ دیکھنے کی کوشش کیجئے کہ کیا لکھ رہا ہے؟ خلیق الزماں نصرت اپنے پیغام میں کہتے ہیں : ’’کسی زبان کو زندہ کرنا حکومت نہیں بلکہ وقت کے ہاتھ میں ہے اور وقت عمل کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے، اردو والوں نے صبر وسکون وضبط وبرداشت کی آخری حد پار کر لیا ہے اب ایک فیصلہ کن جیت کی ضروری ہے۔‘‘ (ص۶۸)
سلیم خان نے نو جوانوں کو پیغام دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اردو پڑھیں، اپنے بچوں کو پڑھائیں اور اگر لکھ سکتے ہیں تو لکھیں اور لوگوں تک پہونچائیں (۷۸) یہ اور اس قسم کے بہت سارے بیانات اور پیغامات ہیں، جن سے اردو دوستوں اور ادیبوں کو اچھی رہنمائی ملتی ہے، انور آفاقی نے اس کتاب میں شامل نورتنوں کا ہر انٹر ویو سے قبل مختصر تعارف پیش کرکے ان کی ذات وصفات اور خدمات کو سمجھنے کی راہ ہموار کر دی ہے، جس کے پاس وقت ہو وہ پورا انٹر ویو پڑھ لے، معلومات میں اچھا خاصہ اضافہ ہوگا، جس کے پاس وقت کم ہو وہ مختصر تعارف پڑھ کر بھی انٹر ویو دینے والوں کے دروبست کو سمجھ سکتا ہے، اس لیے میری نظر میں کتاب وقیع ہے اور اس لائق ہے کہ ادب سے تعلق رہنے والوں کے گھروں میں محفوظ رہے تاکہ آئندہ نسلیں بھی اس کا مطالعہ کرکے ادب کی راہ پر گامزن ہو سکیں، حقیقی ادب میں ان میں آئے فنی ادب تک بھی ان کی رسائی ہو سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button