خلاصۂ قرآن
مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
29 واں پارہ : ’’تبارک الذی بیدہ الملک‘‘ سے شروع ہے، اس میں کئی سورتیں ہیں ، وہ یہ ہیں : سورہ ملک ،سورہ قلم، سورہ حاقہ،سورہ معارج ،سورہ نوح،سورہ مزمل، ،سورہ مدثر ،سورہ قیامہ اور سورہ دہر ، سورہ ملک میں اللہ نے اپنی قدرت کو بیان کیا ہے کہ اسی نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم مںں سے کون عمل کے اعتبار سے اچھا ہے ،اسی نے سات آسمان بنائے ،جن میں کوئی کمی نہیں ہے ،اسی نے آسمان کو چراغوں سے آراستہ کیا ،اور شیطانوں کو مارنے کا ذریعہ بنایا، پھر کفار ومشرکین کو جہنم میں ڈالنے کا ذکر ہے ،نیز یہ بھی مذکور ھے کہ جب جہنم کے مالک ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا ،وہ کہیں گے کہ ہاں آیا تھا ، مگر ہم نے ان کی بات نہیں مانی تھی ،اس طرح وہ اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے اس کے بعد ان کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا ،پھر اللہ تعالیٰ نے بتا یاکہ وہی آسمان سے پانی برساتا ہے ،پرندے خلا میں اپنا پر پھیلائے اُڑتے ہیں
یہ ہماری قدرت کا مظاہرہ ہے ،آخر میں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ وہی پانی کا مالک ہے ،اگر وہ پانی کو زمین کے اندر لے جائے ،تو کون ہے جو پانی کو اوپر لاسکے ،اس کے بعدسورہ قلم شروع ہے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ثابت کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ کفار ومشرکین آپ کو مجنوں کہتے ہیں ،اللہ کے فضل سے آپ مجنوں نہیں ہیں ،آپ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر ہیں ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت کی گئی کہ یہ کفار ومشرکین آپ کو راہ راست سے الگ کرنا چاہتے ہیں ، بالخصوص ایسا آدمی جو طعنے دینے والا ،چغلیاں کھا نے والا ہے ،صبر سے روکنے والا ہے ،اس کے پاس مال اور اولاد بھی بہت زیادہ ہیں ،آپ اس کی چال میں نہ آئیے ،اس کی بات نہ مانئے ،پھر باغ والوں کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کو ہم نے آزمایا تو ان کا باغ جل کر خاک ہو گیا،ہم نے ان کو نعمتوں سے نوازا ہے ،پھر ہم ان سے اپنی نعمت چھین لیں گے ،
پھر کفار ومشرکین کا حال بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ تمہاری کون ذمہ داری لیتا ہے، اگر تم سچے ہو تو ان کو بلاؤ ، جن کو تم میرے ساتھ شریک کرتے تھے ،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ صبر سے کام لیجئے ،مچھلی والے کی طرح نہ ہوئیے ،انہوں نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی تو ہم نے ان کو مچھلی کے پیٹ میں پہنچا دیا ،پھر جب ہم نے چاہا ان کو مچھلی کے پیٹ سے نکال کر ساحل پر پھینک دیا ، پھر ہم نے ان کو طاقت دی ،پھر ہم نے ان کو نبی بنایا ،اس کے بعد سورہ حاقہ شروع ہے ،جس میں مختلف قوموں کے عذاب میں گرفتار کئے جانے کا ذکر ہے ، قیامت کے واقع ہونے کا بیان ہے ،اس میں اس کا بھی ذکر ہے کہ اچھے لوگوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا ،
یہ بھی پڑھیں
- جمعیت علماء اتردیناجپور کا انتخابی عمل
- تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ
- سکشمتا 2.0 میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات
اس کے بعد سورہ معارج شروع ہے اس میں بھی قیامت کے واقع ہونے کا بیان ہے ،انسانوں کے صفات کا ذکر ہے ، نیز جنتیوں کے صفات کو بھی بیان کیا گیا ہے ،پھر سورہ نوح شروع ہے ، اس میں نوح علیہ السلام کی تبلیغ کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں میں ایک طویل مدت تک تبلیغ کا کام کیا ،ان کو ہر طرح سمجھایا ،مگر ان لوگوں نے ایمان قبول نہیں کیا ،انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے یہ بھی کہا کہ اگر تم استغفار کرو گے تو تمہارے مال اور اولاد میں اضافہ کردیا جائے گا ،اللہ تعالیٰ باغ اور نہریں جاری کردے گا ،انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے یہ بھی کہا کہ یہ ود ،سواع،یغوث ،یعوق اور نسر جو تمہارے بت ہیں جن کی تم پرستش کرتے ہو ،ان کی پرستش چھوڑ دو ،تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم ان کی پرستش نہیں چھوڑ سکتے ،در اصل یہ سب ان کے بزرگوں کے مجسمے تھے ،جن کی وہ لوگ پوجا کرنے لگے تھے ،پھر ان لوگوں نے نوح علیہ السلام کی بات کو نہیں مانا اور سر کشی اختیار کی تو نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعاء کی کہ ان کو ہلاک کر دے ،ان میں سے کسی کو نہ چھوڑ ،اس لئے کہ اگر ان میں سے کوئی باقی رہے گا تو پھر یہ لوگوں میں گمراہی پھیلائے گا،تو اللہ نے ا ن کو پانی کے طوفان سے ہلاک کردیا
اس کے بعد سورہ جن شروع ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وادی نخلہ میں نماز میں قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ،جنوں کی ایک جماعت کا گذر ہوا ، تو انہوں نے قرآن سنا تو وہ بہت متأثر ہوئے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر ایمان لے آئے ،پھر وہ اپنی قوم کے پاس گئے ،اور واقعہ سنایا ،تو ان کی قوم کے لوگ بھی ایمان لے آئے ، پھر انہوں نے اپنی قوم میں تبلیغ شروع کی ،انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ مسجدیں صرف اللہ کے لئے ہیں ،ان میں صرف اللہ کی عبادت کی جائے ،ان میں اللہ کے سوا نہ کسی کی عبادت کی جائے اور نہ کسی سے فریاد کی جائے، اس کے بعد سورہ مزمل شروع ہے ،اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا حال بیان کیا گیا ہے کہ آپ پوری رات عبادت میں مشغول رہتے تھے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ پوری رات عبادت نہ کریں ،
اس سورت میں امت مسلمہ کو بھی تعلیم دی گئی ہے کہ رات میں عبادت کرنے سے بہت سے فائدے ہیں ،اس سے نفس کو قابو میں کرنے میں آسانی ہوتی ہے ،رات میں قرآن پڑھنے سے اثر بھی ہوتا ہے ،عبادت کرنے میں مزہ بھی آتا ہے ،پھر یہ بتایا گیا کہ قرآن میں سے جتنا آسانی سے پڑھ سکتے ہو،اس کو پڑھو ،نماز قائم کرتے رہو،اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دیتے رہو،اس کے بعد سورہ مدثر شروع ہے، اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ تبلیغ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں ، اور اپنے رب کی کبریائی بیان کیجئے ،اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے انکار کریں گے وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے ،
پھر اس کے بعد جہنم کے بارے میں کچھ باتیں بیان کی گئی ہیں ، جنت والوں اور جہنم والوں کے درمیان جو بات چیت ہوگی اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ جہنم میں داخل ہونے والے کہیں گے کہ ہم اس لئے جہنم میں داخل ہوئے کہ نماز نہیں پڑھتے تھے ،مسکینوں کو کھا نا نہیں کھلاتے تھے ،ہم بُرے لوگوں کے ساتھ مل کر اچھے لوگوں کو تکلیف پہنچانے کے تدابیر پر غور وفکر کیا کرتے تھے ،اور قیامت کو جھٹلاتے تھے ،
اس کے بعد سورہ قیامہ شروع ہے ،اس میں بتایا گیا کہ جب قیامت قائم ہوگی تو انسان حیران ہو جائے گا اور کہے گا کہ کہاں بھاگ کر جاؤں ،لیکن وہاں کوئی بھا گنے کی جگہ نہیں ملے گی ، اور نہ اللہ کی پکڑ سے بچ سکے گا ، اس میں اس کا بھی بیان ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی جلدی پڑھتے تھے کہ کہیں بھول نہ جائیں ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی ! آپ جلدی نہ کریں ،بلکہ غور سے سنیں ،پڑھا نا ہماری ذمہ داری ہے اور یاد کرانا بھی ہماری ذمہ داری ہے ،
قیامت کے دن لوگوں کی حالت کیا ہوگی اس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے اور بہت سے چہرے پژمردہ ہوں گے ،تروتازہ چہرے والے اہل ایما ن ہوں گے اور پژمردہ چہرے والے کفار ومشرکین ہوں گے ،اس کے بعد سورہ دھر شروع ہے ،اس میں بتایا گیا کہ انسانوں پر ایک ایسا دور آیا ہے کہ وہ کچھ نہیں تھا ،پھر اللہ نے اس کو وجود بخشا ،اس کے بعد اہل جنت اور اہل جہنم کے حالات کابیان ہے
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تلقین کی گئی ، اور صبح وشام اللہ کے ذکر و فکر میں مشغول رہنے کا حکم دیا گیا ،اس کے بعد سورہ مرسلات شروع ہے ،اس میں قیامت کے وقوع کا ذکر ہے ،اس میں بتایا گیا کہ قیامت کے وقوع کے وقت آسمان ،پہاڑ اور ستاروں کی کیا حالت ہو گی؟ اس میں اس کا بھی بیان ہے کہ اس دن انسانوں کا کیا حال ہو گا ؟ان سب باتوں کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ او ر اس کے رسول پر ایمان لائے ،اور نیک اعمال اختیار کرے۔
یہ بھی پڑھ سکتے
- جمعیت علماء اتردیناجپور کا انتخابی عمل
- تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ
- سکشمتا 2.0 میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات
- سکشمتا 2.0 میں پوچھے گئے سوالات
- سکشمتا پریکشا میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات جواب کے ساتھ دیکھیں
قومی ترجمان کا ٹیلیگرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کریں!