حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی : آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو : عین الحق امینی قاسمی
یاد پڑتا ہے کہ بابری مسجد کے انہدام سن 92ءسے قبل جب حضرت قاضی صاحب ملک میں لگی نفرت کی آگ کو بجھانے کے لئے الہ آباد تشریف لائے تھے تو اسی سفر میں وہ قصبہ پھول پور الہ آباد جامعہ عربیہ عین العلوم بھی تشریف لائے تھے،جہاں انہیں اس عاجز کو پہلی مرتبہ قریب سے دیکھنے اور خدمت کا موقع ملا تھا ،گرمی سخت تھی، دوپہر کا وقت تھا ،طلباء دن کا کھا نا حا صل کرنے کی غرض سے لائن میں کھڑے تھے کہ اچانک ایک سفید رنگ کی کار مرکزی دروازے سے اندر آئی اور جاکر مولانا سلطان احمد صاحب زید مجدہ کے احاطےمیں ٹھہری،آگے کی سیٹ پر لحم شحم مولوی نما ایک خادم صاحب جو الہ آباد سے ساتھ ہوگئے تھے،جب کہ پیچھے کی نشست پر حضرت قاضی صاحب تشریف فرما تھے ، مہمانوں کو مدرسے میں آتے دیکھتے ہی قریب سو کی تعداد میں طلباء کا ایک جتھہ مصافحے کے لئے دوڑا،بجائے یہ کہ انہیں اتر نے دیا جا تا ،سب کے سب خادم صاحب کو ہی مخدوم گرامی قدر جان کر ان سےمصافحے کے لئے ٹوٹے پڑ رہے تھے ،
قاضی صاحب پیچھے کی سیٹ سے یہ ساراماجرا دیکھ رہے ہیں ،ادھر خادم صاحب طلباء کی وارفتگی اور عقیدت میں غرق مستانہ وار حملے اور اندر ہی اندر قاضی صاحب کی موجود گی میں غیر اختیاری مخدومیت کی شرف یابی سے پانی پانی ہورہے تھے ،بس اچانک سامنے کے کمرے سے حضرت مولانا فیاض عالم صاحب قاسمی مدظلہ العالی مہتمم جامعہ عربیہ عین العلوم تیز گامی سے تشریف لائے اور پورے جلال میں طلباء سے مخاطب ہوئے "ہائے رے پتھر کی اولادو! قاضی صاحب یہ ہیں "اور خود بڑھ کر انہیں گاڑی سے اتارا ،ان کےمصافحہ ومعانقہ کے بعد پھر طلبا ءکرام ،حضرت قاضی صاحب سے فیض یاب ہوئے اور خادم صاحب الگ کمرے میں سکون کی سانس لینے جو گئے تو پھر جاتے وقت ہی باہر آئے۔
یہ بھی پڑھ سکتے ہیں
- جمعیت علماء اتردیناجپور کا انتخابی عمل
- تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ
- سکشمتا 2.0 میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات
قاضی صاحب کی شخصیت سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ بڑے یوں ہی نہیں ہوتے یا بڑوں میں کیا سب گن ہوتے ہیں ۔خندہ پیشانی سے کبھی وہ بے وجہ بھی سفر کرلیا کرتے تھے اور جس سمت نکلتے ،تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی مگر اپنے معاصرین و خردکو فیضیابی کا موقع ضرور دیتے۔
کیا لوگ تھے جو راہِ وفاسے گذر گئے
دل چاہتا ہے نقشِ قدم چومتا ر ہوں
ان حضرات کے مقابلے میں، ہمارے پاس نہ وہ ذمہ داریاں ہیں اور نہ تگ ودو اور ملی وسماجی خدمات کے لئے وہ بلند خیالی ،ظاہر ہے کہ ایسے میں نہ ہمارے پاس وقت ہوگا اور نہ فرصت ،کیوں کر ہم بے وجہ سفرکریں گے اور خاص طور پر چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ان کے ٹھکانوں پر پہنچ کر ان کی پیٹھ تھپتھپائیں گے؟جب کہ یہ چیز افادہ واستفادہ کے لئے بہت مؤثر اور دیر پا ہے ،اسی سے افراد بنتے بھی ہیں اور کام کے وقت ملتے بھی…. یہ نہ ہو تو قحط الرجال کا شکوہ پوری زندگی پیچھا نہیں چھوڑے گا اور بہت کچھ چاہ کر بھی ہم نہیں کرپائیں گے ،قاضی صاحب میں افراد سازی کا یہ گن امیر شریعت رابع رحمۃ اللہ علیہ سے آیا اور خوب خوب آیا ،جس کی نشانی فقہ اکیڈمی ہے جس کی نشانی ملی کونسل ہے اور جس کی نشانی دارالعلوم الاسلامیہ پٹنہ جیسے درجنوں ادارے ہیں اور موجودہ وقت میں ہزاروں مردان جفا کار جو اپنی اپنی جگہ مستقل انجمن ہیں وہ سب قاضی صاحب کے اسی افراد سازی کے نظرئیے کی دین ہیں :
اےنسیم صبح !تیری مہربانی
جلسوں میں دور سے سننے کا موقع ایک سے زائد بار ملا ،مگر قریب سے برتنےاور پرکھنے کا تفصیلی موقع دوسری بار اس وقت ملا ،جب بزم سجاد طلبہ ،بہار،اڑیسہ وجھاڑکھنڈ کے تحت سالانہ اختتامی اجلاس میں بحیثیت مہمان خصوصی آپ دارالعلوم میں تشریف لائے ،یہ عاجز اس وقت پنجم یا ششم میں تھا ،عشاء کے بعد پورے تزک و احتشام کے ساتھ پروگرام شروع ہوا ،پروگرام کاایک ایک پل قاضی صاحب سے مل کر بڑے خوش اسلوبی سے گذررہا تھا،دیکھتے ہی دیکھتے وہ گھڑی بھی آگئی جب قاضی صاحب ہمیں نصیحت کرنے دارالحدیث میں اسٹیج پر لگی کرسی خطابت پر جلوہ افروز ہوئے ،حمد وصلوۃ کے بعد فرمایا :
” یہ دارالحدیث ہے جہاں بیٹھ کر اکابرین واہل اللہ نے لوگوں کے دل اور ملک ووطن کی ایک ساتھ رہبری فرمائی ،آج یہاں بیٹھا ہوں تو اصلاح حال وزمان کی ایک پوری دنیا ذہن میں گھوم رہی ہے ،میں آپ کو کیا نصیحت کروں ،خود کو نصیحت سننے کے قابل پارہا ہوں ،مگر چلئیے آپ کو نصیحت کرنے سے بھی اپنی ہی اصلاح ہوگی۔یاد رکھئے ! آپ نائب رسول ہیں ،انبیاؤں اور رسولوں کی تاریخ ذمہ داریوں سے بھری ہے ،آپ بھی انہیں ذمہ داریوں کے امین ہیں ،انبیاء ورسل، کبھی بھی ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے نہ کترائے نہ ٹکرائے،یہی چیزیں آپ کو بھی ذہن میں رکھنی ہے ۔ یہاں کی مدت تعلیم پوری کرکے جب آپ میدان عمل میں آئیں گے ،تو ذمہ داریوں سے واسطہ پڑے گا ،اس وقت ذمہ داری قبول کرنے سے نہ کترانا ہے نہ ٹکرانا ہے ،کتراناتو اس لئے نہیں ہے کہ آپ جس نبی برحق محمد عر بی صلی اللہ علیہ وسلم کے امین و وارث ہیں اس کی یہ صفت نہیں ،ہزار مخالف ماحول ہونے کے باوجود نبوت کی ذمہ داری قبول کی اور تادم آخر ، مخالف موافق سب کے سامنے وحدانیت کی دعوت کو پیش کرتے رہے ۔
ٹکرانا اس لئے نہیں ہے کہ ٹکرانے سے کام کا راستہ بند ہو جاتا ہے ، مواقع ہاتھ سے نکل جاتے ہیں ، اور پھر یہ کہ جبھی تک آپ ٹکراتے رہیں گے ، جب تک صلاحیت ساتھ دے گی ،مگر اس کی وجہ سےآپ کی ساری صلاحیت دفاع میں ہی ختم ہو جائے گی اورکچھ ایسا کام جس سے قوم وملت کو فائد ہ پہونچے ،آپ اپنےجیتے جی نہیں کرپائیں گے،بلکہ مقصد سے آپ ہٹ جائیں گے۔اس کو آپ پانی کی اس روانی سے بھی سمجھ سکتے ہیں ،جس کی صفت بہنا ہے ،اسی لئے وہ اپنے مقصد کو پیش نظر رکھ کر اپنی صلاحیت کو رواں رکھنے پر لگاتا ہے ،کبھی سامنے کی اونچائی سے ٹکراتا نہیں ،بلکہ جدھر اسے نشیب ملتا ہے وہ مقابل سے اپنا رخ موڑ کر نشیب کی طرف بہنے لگتا ہے ۔عزیزو! کام اگر کرنا ہے تو مثبت اور تعمیری ذہن ابھی سے تیار کرو اور جواب الجواب والے سونچ وخیال سے خود کو الگ رکھو”
ق
اضی صاحب گرچہ اب نہیں رہے ،مگر ان کا پیغام تازہ ہے ان کی خوبیاں زندہ ہیں اور آج کی تاریخ ہمیں ان کی یادوں سے سرشار کرتی ہے ۔
یہ بھی پڑھ سکتے ہیں
گھر بیٹھے آدھار کارڈ میں اپنا موبائل نمبر یا نام، پتہ تبدیل کریں، جانیں یہ آسان طریقہ
आरबीआई ने पेटीएम पेमेंट्स बैंक को नए खाते खोलने से रोककर झटका दिया।
- جمعیت علماء اتردیناجپور کا انتخابی عمل
- تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ
- سکشمتا 2.0 میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات
قومی ترجمان کا ٹیلیگرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کریں!