جو فقیر ہو کر بھی دیکھے خواب بادشاہت کا!! از :- جاوید اختر بھارتی
ایک باپ کے دو بیٹے ایک کا نام زید،، دوسرے کا نام بکر،، باپ کا نام عمر،، زید بڑا بیٹا ہے اور بکر چھوٹا بیٹا ہے زید پیدا ہوتا ہے تو باپ خوشی میں خوب میٹھائی بانٹتا ہے ساتویں دن عقیقہ کرتا ہے سبھی رشتہ داروں کو دعوت دیتا ہے ایک ماہ کا بیٹا ہوتا ہے تو اسے گود میں لے لے کر سیر و تفریح کرنے جاتا ہے ہر ایک سے کہتا ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے ابھی اس بیٹے کی عمر دو سال کی ہوتی ہے کہ پھر ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے باپ پھر پھولے نہیں سما تا ہے پھر ساتویں دن دھوم دھام سے عقیقہ کرتا ہے ، دعوت کا اہتمام کرتا ہے بڑی تعداد میں رشتہ دار اور دوست احباب آئے ہوئے ہیں تحفے تحائف دے رہے ہیں اور مبارکباد پیش کررہے ہیں باپ خوشیوں سے جھوم رہا ہے خون پسینہ بہاکر دونوں کی پرورش کرتا ہے دونوں بیٹے بڑے ہوکر اسکول جانے لگے
باپ دونوں بیٹوں کو روزانہ اسکول چھوڑنے جاتا ہے اور اس کے بعد محنت مزدوری کرنے کے لئے چل دیا کرتا ہے اور پورا دن مزدوری کرتا ہے بیشمار تکلیفیں برداشت کر تا ہے اور شام کو جب محنت مزدوری سے فارغ ہوتا ہے تو خون پسینے کی کمائی لیکر گھر کے لئے روانہ ہوتا ہے راستے میں بچوں کے لئے کھلونے بھی خریدتا ہے اور ان کے کھانے پینے کے لئے چاکلیٹ کیک بسکٹ بھی خریدتا ہے سب کچھ لے کر گھر میں جب داخل ہوتا ہے تو دونوں بیٹے آکر ہاتھوں کو پکڑ لیتے ہیں باپ دونوں بیٹوں کو دیکھ کر خوش ہوجاتا ہے اور ان کی پیشانیوں کو چومتا ہے دونوں کا ہاتھ پکڑ کر ٹہلاتا ہے اور اپنی زبان سے بار بار کہتا ہے کہ میرے دونوں بیٹے میرا ہاتھ پیر ہیں، میرے بازو ہیں میرے لئے سہارا ہیں اور میری آنکھوں کی چمک ہیں ان کو دیکھ کر مجھے جینے کا حوصلہ ملتا ہے-
یہ بھی پڑھیں
بہار میں راشن کارڈ کے لیے آن لائن درخواست شروع، جلدی کریں رجسٹریشن، یہاں جانیں درخواست دینے کا طریقہ
باپ کہتا ہے کہ میں بھوک پیاس برداشت کرسکتا ہوں مگر اپنے بچوں کی بھوک پیاس برداشت نہیں کرسکتا وہ روزانہ محنت مزدوری کرتا ہے اور اسی پیسوں سے اپنے دونوں بیٹوں کو پڑھاتا ہے ان بچوں کو کبھی گود میں اٹھاتا ہے تو کبھی کندھے پر بیٹھا تا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے بیٹوں یہ کاندھا تمہارے لئے تو ہے ان کندھوں کی طاقت تمہیں دونوں تو ہو بس اللہ تم دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے آباد رکھے تمہیں دونوں تو باپ کی لاٹھی ہو اور ماں کے گلے کا ہار ہو اللہ تمہیں قدم قدم پر کامیابی عطافرمائے آخر دونوں بیٹے پڑھائی کرتے کرتے کامیابی کی منزلوں سے ہمکنار ہوتے ہیں اور دونوں کو سروس بھی مل جاتی ہے صبح سویرے ماں باپ کو سلام کرکے دونوں بیٹے اپنی اپنی آفس چلے جاتے ہیں اور باپ دروازے پر کھڑا ہوکر اس وقت تک ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا جب تک دونوں بیٹے آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوجاتے-
زید و بکر دونوں کی سروس کو دیکھتے ہوئے اب دونوں کا رشتہ بھی آنے لگا چنانچہ دونوں کا رشتہ طے بھی ہوگیا ایک دن ایسا موقع بھی آیا کہ دونوں بیٹوں کے سروں پر سہرا سجا اور دونوں کا نکاح ہوا یعنی دونوں بیٹے رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے کچھ دن تک باپ کا ادب احترام دونوں بیٹے کرتے رہے اور دونوں بیٹوں کی بیویاں بھی کرتی رہیں مگر باپ اب کمزور ہوگیا سر پر بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں رہی، بھوک پیاس اور دھوپ برداشت کرنے کی بھی طاقت نہیں رہی علاوہ ازیں بیمار بھی رہنے لگا
نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں بیٹوں کی نظر میں باپ بوجھ لگنے لگا،، جس باپ نے دونوں بیٹوں کو پال پوس کر بڑا کیا، پڑھا لکھا کر کسی قابل بنایا وہی بیٹے اب والدین کا بٹوارہ کرنے لگے کہ ماں میرے ساتھ رہے گی اور ابو تیرے ساتھ رہیں گے اور دونوں کی بیویوں کا مزاج ایسا ہوگیا کہ ایک اپنی ساس کے سامنے اور دوسری اپنے سسر کے سامنے قینچی کی طرح زبان چلانے لگی،، کچھ ہی دنوں بعد ماں کا انتقال ہو جاتا ہے اب بچا باپ ،، جس کی شریک حیات بھی دنیا میں نہ رہی،، بیماری نے بھی شدت اختیار کی اور بیٹوں نےالگ اپنا مکان تعمیر کرالیا کچھ دنوں تک بڑے بیٹے کے پاس باپ رہتا ہے ایک دن بڑا بیٹا باپ کو گاڑی میں بیٹھاتا ہے اور اپنے چھوٹے بھائی بکر کے دروازے پر گاڑی روکتا ہے،، چھوٹا بھائی دروازہ کھول تا ہے تو بڑا بھائی کہتا ہے کہ یہ صرف میرے باپ نہیں بلکہ تیرے بھی باپ ہیں اتنے دن میں رکھا اب تو رکھ یہ کہہ کر گاڑی میں بیٹھا اور چل دیا
نوٹ: زید، بکر اور عمر یہ نام مضمون لکھنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے….
یہ بھی پڑھیں
گھر بیٹھے آدھار کارڈ میں اپنا موبائل نمبر یا نام، پتہ تبدیل کریں، جانیں یہ آسان طریقہ
باپ بیماری سے نڈھال ہوچکا ہے چھوٹا بیٹا بکر اپنے باپ کو گھر میں لے کر داخل ہوتا ہے تو بیوی برس پڑی کہ ہم سے ان کی خدمت نہیں ہوسکتی اس گھر میں یا تو تمہارے والد رہیں گے یا پھر میں رہوں گی مگر دونوں نہیں،، آخر کار دوسرے دن بیٹا کہتا ہے کہ ابو جان ہمیں دعوت میں جانا ہے اور کئی دن رہنا ہے آپ کی دیکھ بھال کون کرے گا چلئے میرا ایک دوست ہے وہ ضعیفوں کے لئے ایک ہاسٹل بنوایا ہے وہاں آپ رہیں گے تو اچھی طرح سے دیکھ بھال ہوتی رہے گی باپ کو پہنچایا ضعیفوں کے ہاسٹل میں اور خود گھر چلا آیا ایک دن چھوٹا بیٹا ڈیوٹی پر گیا کہ کمپنی کا مالک بولتا ہے کہ شام کو میٹنگ ہے بڑے میٹنگ ہال میں سارا انتظام چار بجے تک ہوجانا چاہیے سارا انتظام ہونے کے بعد بھی مالک نہیں آیا جب بکر نے فون کیا تو مالک نے کہا کہ میٹنگ ملتوی کردو میں نہیں آسکتا
جب دوسرے دن بکر نے مالک سے میٹنگ میں نہ آنے کی وجہ پوچھی تو مالک نے کہا کہ میرے والد صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی تھی انہیں علاج کے لئے اسپتال لے جانا تھا بکر کہتا ہے کہ باپ کی بیماری کی وجہ سے آپ نے میٹنگ ملتوی کردی کروڑوں روپے کا نقصان ہوا تو مالک نے کہا کہ تم نے کروڑوں روپے کا نقصان بتایا اور میں نے اس کی کئی گنا دولت کمایا بکر پوچھتا ہے وہ کیسے تو مالک نے کہا کہ جب میں نے اپنے والد کا علاج کرایا تو اسپتال سے ڈسچارج کے بعد میں ان کو گھر لے کر آیا تو میرے باپ نے مجھے دعائیں دیں کہ اللہ تجھے خوب ترقی دے اور تیری اولاد کو بھی نیک و صالح اور تیرا فرمانبردار بنائے میں تیری خدمت سے خوش ہوا بیٹا،، اللہ بھی تجھ سے خوش ہو اور راضی ہو بس میری یہی دعا ہے،، تو میرے باپ نے مجھے جو دعائیں دیں وہ میرے لئے ذریعہ نجات ہے، راہ نجات ہے اور یہی میرے لئے سب سے بڑی دولت ہے اور اس دولت کا نام جنت ہے ایک بات اور یاد رکھنا وہ باپ ہی ہے جو فقیر ہو کر بھی بیٹے کے لئے بادشاہت کا خواب دیکھتا ہے –
قومی ترجمان کا ٹیلیگرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں کلک کریں!