اندازِ سخن : مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ، نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
سلطان احمد شمسی بن محمد یوسف مرحوم (ولادت ۳؍ مئی ۱۹۴۵) برداہا کمتول، موجودہ ضلع مدھوبنی کے رہنے والے ہیں، امارت شرعیہ کے پرانے نقیب ہیں، محکمہ ڈاک دربھنگہ سے سبکدوش ، پبلک ریلیشن انسپکٹر ہیں، شاعری ، مضمون نگاری اور سماجی خدمات سے شغف پہلے بھی تھا،سبکدوشی کے بعد اب یہ کُل وقتی مشغلہ ہے، کئی توصیفی اسناد وایوارڈ حاصل کر چکے ہیں، ہندوستان کے مختلف رسائل میں آپ کا کلام شائع ہوتا رہا ہے، ٹی وی پر برسوں آکاش وانی دربھنگہ سے ہفتہ وار جائزہ پیش کرتے رہے ہیں، اس کی وجہ سے تجزیاتی صلاحیت مضبوط ہے، مدحت رسول، ریت کا سفر کے بعد اب کے’’ انداز سخن‘‘ لے کر قارئین کی خدمت میں آئے ہیں، تیسرا ، چوتھا شعری مجموعہ آنا ہی چاہتا ہے۔
انداز سخن دو سو صفحات پر مشتمل ہے، جن میں اکیس صفحات نثری تحریروں کے ہیں، انہیں صفحات میں انتساب مخلص کرم فرماؤں کے نام، مختصر تعارف اور پیش لفظ بقلم خود (شکیل شمسی) اور تقریظ ڈاکٹر ایم صلاح الدین کے قلم سے ہے ، اس میں ایک مضمون پروفیسر آفتاب اشرف کے قلم سے ’’مصمم عزم سے منزل کو پانے کی‘‘ -عنوان سے ہے، عنوان ناقص اور کچھ اٹ پٹا سا ہے، البتہ مضمون کے مندرجات اچھے ہیں۔ اس کے بعد حمد ، نعت اور ایک منقبت کو شامل کتاب کیا گیا ہے ، اس کے بعد کتاب تین حصہ ، غزل، نظم او رقطعات پر منقسم ہے، غزلوں کی تعداد چھیاسٹھ، نظموں کی تعداد پانچ، قطعات چھ اور ایک سہرا کو بھی جگہ دی گئی ہے ، جسے ڈاکٹر امام اعظم ریجنل ڈائرکٹر مانو کولکاتہ کے صاحب زادہ ڈاکٹر نوا امام کی شادی میں پڑھا گیا تھا۔
مجموعہ کے مشتملات کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سلطان شمسی نے شاعری کے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کے ساتھ ان اصناف کے تقاضوں کو اپنی شاعری میں برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے، ان اشعار کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب میں رائج گروپ بندی سے وہ الگ ہیں، ان کی فکر، ان کی سوچ، ان کا تخیل اور ان کا انداز سخن’’ مانگے کا اجالا‘‘ نہیں ہے ۔ ان کی شاعری خالص بندگی کے گرد تو نہیں گھومتی ، لیکن بندگی کا عنصراس میں ضرور پایا جاتا ہے، شاعری میں دور جحان تو پہلے سے رائج ہے ، ایک ادب برائے ادب اور ایک ادب برائے زندگی کا، ادب برائے ادب کا تصور اب ختم سا ہو گیا ہے اور ادب برائے زندگی کا مطلب مادیت پر مشتمل تخیلات ہیں، جو جدیدیت کے فیشن سے ٹکرا کر شاعری میں معمہ اور چیستاں اور افسانے میں بنیے کا روزنامچہ بن کر رہ گیا ہے اور الحاد ودین بیزاری کے جراثیم نئی نسلوں میں تیزی سے منتقل کر رہا ہے
ایسے میں ’’ ادب برائے بندگی‘‘ کو رواج دینا چاہیے اور اس میں بڑی گنجائش اس لیے ہے کہ عشق مجازی سے متعلق لفظیات وتعبیرات سے عشق حقیقی تک پہونچنے اور پہونچانے کا کام ماضی میں بھی کثرت سے لیا جاتا رہا ہے اور اب بھی اس کی مثالیں ناپید نہیں ہیں، شاعر اپنے عہد کی پیداوار ہوتا ہے، وہ ان واقعات وحالات ، حوادث ، ومصائب سے متاثر ہوتا ہے، جو اس پر گذری یا اس کے ارد گرد سے گذر گئی ، تخیلات ایسے ہی واقعات اور تاثرات کے سایے میں پیدا ہوتے، بڑھتے اور جواں ہوتے ہیں، شاعر کے کہنے کا انداز اس میں ندرت پیدا کرتا ہے اور سیدھے سادھے واقعات جب اشعار کے پیکر میں ڈھلتے ہیں تو وہ دلوں کو گرماتے اور عقل وشعور کو مہمیز کرتے ہیں، گرد وپیش کے حالات جب اشعار کے سانچے میں ڈھلتے ہیں تو شعراء وادباء اسے عصری حسیت سے تعبیر کرتے ہیں، سلطان شمسی کی شاعری میں عصری حسیت سے بھر پور اشعار کی تعداد بھی کم نہیں ہے ، چند اشعار دیکھے۔
خون جگر سے سینچا تھا جس نے چمن کو بھی
نسبت کہاں کسی کو ہے اس باغباں کے ساتھ
آئے ہیں ملنے ہاتھ میں خنجر لیے ہوئے
ان کو ہے مجھ سے کتنی عداوت سمجھ گیے
بڑھاہے ظلم وستم اب تمہاری بستی میں
بہت ہی جلد خدا کا عذاب آئے گا
سلطان شمسی کے بعض اشعار سے گمان ہوتا ہے کہ انہوں نے دوسرے شعراء سے خیال مستعار لیا ہے، ادب کی دنیا میں اسے توارد بھی کہتے ہیں، جیسے شاعر کا یہ شعر دیکھیے:
جانے کیسی بادلوں کے درمیاں سازش ہوئی
میرا گھر مٹی کا تھا میرے ہی گھر بارش ہوئی
سلطان شمسی اسی بات کو چند الفاظ کے الٹ پھیر کے ساتھ کہتے ہیں:
دشمنوں کی جانے کیسی بادل سے کچھ بات ہوئی
بے چھپر کا گھر تھا میرا میرے گھر برسات ہوئی
دونوں کو آپ نے پڑھ لیا، تجزیہ کریں تو جو شاعری پہلے شعر میں ہے وہ سلطان شمسی کے یہاں نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مٹی کے گھر میں سر چھپانے کی گنجائش برسات میں بھی رہتی ہے، سلطان شمسی کے گھر پر تو چھپر ہی نہیں ہے ، اس لیے بارش کا سارا قہر ان کے تن وبدن سے ہو کر گذر رہا ہے۔
سلطان شمسی کے یہاں چھوٹی بحر میں سہل ممتنع کی بھی مثالیں ملتی ہیں،ان میں ایسی روانی ہے جو سُبک بھی ہے اور زبان پر آسان بھی، آپ بھی دیکھیے:
رات اکیلی بھاری تھی
عشق نے بازی ہاری تھی
اس نے مکاں کو جلتے دیکھا
آندھی کی بھی باری تھی
میں نے اندھیروں میں ہی رہ کر
ہجر کی رات گذاری تھی
کتاب خوبصورت دیدہ زیب چھپی ہے ، ٹائٹل دلکش ہے، البتہ دو سو صفحات کی قیمت تین سو روپے اردو کے قاری کی قوت خرید کے اعتبار سے زائد ہے، کہیں کہیں پروف کی غلطی رہ جانے کی وجہ سے بھی پریشانی ہوتی ہے، کتاب پڑھنے کے بعد آپ پروفیسر محمد آفتاب اشرف صدر شعبہ اردو متھلا یونیورسٹی سے کس قدر متفق ہوں گے یہ آپ پر چھوڑتا ہوں، البتہ ان کے ایک اقتباس پر اپنی بات ختم کرتا ہوں، لکھتے ہیں: ’’سلطان شمسی نے اپنی فکر فنی جوہر سے اردو کی غزلیہ شاعری کو اعتبار اور وقار بخشا ہے۔‘‘ پروفیسر مشتاق احمد رجسٹرار متھلا یونیورسٹی سے بھی صرفِ نظر کرنے کو جی نہیں چاہتا، لکھتے ہیں۔
’’سلطان شمسی نے اپنی شاعری کو صرف قافیہ پیمائی تک محدود نہیں رکھا ہے، بلکہ انہوں نے معنیاتی (کذا) اعتبار سے بھی اپنی ایک منفرد شعری دنیا تخلیق کی، جو انہیں ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے۔‘‘